Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرو)108 ۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا،109 ۔ میں زمین پر اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں،110 ۔ وہ بولے کیا تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا درآنحالیکہ ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے رہتے ہیں،1 1 1 ۔ اور تیری پاکی پکارتے رہتے ہیں ؟ (اللہ نے) فرمایا یقیناً میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے112 ۔
108 ۔ اذظرف زمان ہے، کسی گزشتہ واقعہ کی یاد دلانے کے موقع پر آتا ہے۔ جس طرح (آیت) ” اذا “ کسی واقعہ مستقبل پر آتا ہے۔ اذ ظرف موضوع لزمان نسبۃ ماضیۃ وقع فیھا نسبۃ اخری مثلھا (ابوسعود) بعض نے اذکر اس کے قبل مقدر مانا ہے۔ ھو نصب باضمار الذکر والمعنی اذکرلھم (کبیر) واذکروا فعلی بابیکم (کبیر) ابوعبیدہ لغوی نے کہیں کہہ دیا تھا کہ اذ یہاں زائد ہے۔ اس کی شدومد سے تردید اہل لغت وائمہ تفسیر دونوں نے کی ہے۔ قال ابن اسحاق ھذا اقدام عن ابی عبیدہ (لسان) قال الزجاج ھذا اجتراء عن ابی عبیدۃ (ابن کثیر) ردہ ابن جریر قال القرطبی وکذاردہ جمیع المفسرین (ابن کثیر) 109 (آفرینش آدم (علیہ السلام) کے وقت) سورة کے رکوع اول میں بیان فطرت انسانی کا تھا کہ قرآن کے مخاطبین میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک اس کے پیام کو قبول کرنے والے، صالح وسلیم فطرت رکھنے والے، دوسرے بدفطرت، بیام الہی سے انکار کرنے والے، دوسرے رکوع میں مخاطبین کی ایک تیسری نوع کا بیان تھا۔ تیسرے رکوع میں اصل پیام کا لب لباب سنا دیا گیا۔ یعنی توحید و رسالت کی تبلیغ کردی گئی۔ اب اس چوتھے رکوع میں اس تبلیغ کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یعنی یہ پیام ابتداء نسل انسانی کے بانی ومورث حضرت آدم (علیہ السلام) کو دیا گیا، اور ان سے نسل بہ نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔ ملئکۃ جمع ہے ملک کی۔ اور وہ الوک سے ہے، جس کے معنی پیامبری یا پیام رسانی کے ہیں، الالوک الرسالۃ ومنہ الکنی اے ابلغہ رسالتی (راغب) من الالوکۃ وھی الرسالۃ (روح) ملائکہ کو ملائکہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کا اصل کام پیام رسانی ہوتا ہے۔ اور یہ خالق کے پیامات مخلوق تک لایا کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے ایجنٹ یا واسطے ہیں۔ لانہم وسائط بین اللہ تعالیٰ وبین الناس فھم رسل اللہ او کالرسل الیھم (بیضاوی) اردو میں انہیں کو فرشتہ کہتے ہیں۔ فرشتے نوری مخلوق ہوتے ہیں، وجود خارجی رکھتے ہیں، محض صفات الہی یا قوائے طبیعی کے مرادف نہیں، عادۃ انسان کے لیے غیر مرئی رہتے ہیں۔ حسب ضرورت مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ اجسام لطیفۃ ھو ائیۃ تقدر علی التشکل باشکال مختلفۃ مسکنھا السموت وھذا قول اکثر المسلمین (کبیر) ذھب اکثر المسلمین الی انھا اجسام لطیفۃ قادرۃ علی التشکل باشکال مختلفۃ مستدلین بان الرسل کانوا یرونھم کذلک (بیضاوی) ان کی الاانتہاتعداد اللہ ہی کے علم میں ہے۔ وجود میں انسان پر تقدم زمانی رکھتے ہیں۔ سرشت معصومانہ ہوتی ہے۔ یعنی بدی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خالق کے خالص فرمانبردار خادم ہوتے ہیں۔ مخلوق، محکوم، بندے ہونے میں بالکل انسان ہی جیسے ہیں، خود کوئی معبودانہ یا نیم معبودانہ حیثیت دیوی دیوتا کی قسم کی مطلق نہیں رکھتے۔ اور یہیں سے رد ہوجاتا ہے ان باطل مذہبوں کا جنہوں نے ملائکہ کو خواہ اسی نام کے ساتھ، خواہ انہیں دیوی دیوتا قرار دے کر خالق و مخلوق کے درمیان ایک برزخی درجہ دے رکھا ہے (آیت) ” للملئکۃ “ میں لام تبلیغ کا ہے۔ اللام الجارۃ للتبلیغ (روح) 110 (عنقریب اپنی حکومت کی تنفیذ کے لیے) اللہ اللہ ! خاک کے پتلے کا یہ شرف و مرتبہ ! اللہ کی مخلوق تو اس وقت تک بھی بیشمار تھی۔ اب ان میں انسان نامی محض ایک نئی صنف کا اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ اللہ کا نائب زمین پر پیدا کیا جارہا ہے ! بعض اہل تحقیق نے یہیں سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ تخلیق تو ساری ہی موجودات کی ہوئی ہے جنات کی بھی اور ملائکہ کی بھی، جنت کی بھی اور عرش کی بھی۔ لیکن اور کسی کے بھی قصد تخلیق کے ذکر کا اہتمام قرآن مجید نے نہیں کیا ہے۔ یہ فخر صرف خلقت آدم (علیہ السلام) کے حصہ میں آیا۔ اور یہ دلیل ہے آدم (علیہ السلام) کی افضلیت واشرفیت کی۔ ولم یقل انی خالق عرشا اوجنۃ اوملکا وان قال ذلک تشریفا وتخصیصا لادم (بحر) (آیت) ” خلیفۃ “ اسے کہتے ہیں جو کسی کی نیابت کرے، خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں، یا اس لیے کہ فوت ہوچکا، یا اس لیے کہ معذور ہے اور خواہ اس لیے کہ اس سے مسختلف کی تعظیم ظاہر ہو۔ الخلافۃ النیابۃ من الغیر اما لغیبۃ المنوب عنہ واما لموتہ واما لعجزہ واما لتشریف المستخلف (راغب) اور خلیفۃ اللہ وہ ہے جو زمین پر اللہ کی شریعت کی حکومت قائم کرے، یخلفنی فی الحکم بین خلقی وذلک الخلیفۃ ھو ادم ومن قام مقامہ فی طاعۃ اللہ والحکم بالعدل بین خلقہ (ابن جریر، عن ابن عباس وابن مسعود ؓ خلیفۃ اللہ فی ارضہ الاقامۃ احکامہ وتنفیذ قضا یاہ (معالم) یہیں سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ انسان کو جو قوی ملیں گے وہ اس غایت ومقصود یعنی منصب خلافت الہی کے متناسب ملیں گے۔ نسل انسانی خود اپنی صلاح و فلاح کے لیے اس کی محتاج تھی اور محتاج ہے کہ اپنے کسی ہم جنس کے واسطہ سے شریعت الہی سے استفادہ کرے، اور سلسلہ نبوت اسی غرض سے قائم ہوا ہے۔ والمراد بہ ادم وکذلک کل نبی استخلفہم اللہ فی عمارۃ الارض وسیاسۃ الناس وتکمیل نفوسھم وتنفیذ امرہ فیھم (بیضاوی) واضح رہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی انسان، نوع انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت ونیابت الہی پر نہیں رکھا ہے۔ اور خیر جاہلی مذہبوں کا تو ذکر ہی نہیں، خود یہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت دونوں اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہیں۔ بائبل میں اس موقع پر ذکر اس قدر ہے :۔” خداوند خدا نے زمین پر پانی نہ برسایا تھا اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سئے بخار اٹھتا تھا اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتا تھا، اور خداوند خدا نے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا “ (پیدائش 2:5 ۔ 7) گویا جس طرح اور سب حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک ” جاندار “ آدم بھی پیدا ہوگیا۔ اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ ” زمین کی کھیتی “ کرے ! کہاں یہ اتنا طویل لیکن بےمغز، انسان کو کاشتکاری تک محدود رکھنے والا بیان، اور کہاں قرآن مجید کا باوجود شدت اختصار انسان کو مرتبہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ جو ہر خاک کو شرف خلافت اس لیے عطا ہوا کہ کثافت ہی فیضان اتم کے قابل اور تحمل نورانیت کے لائق ہے۔ اور بعض عارفین کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ نور آفتاب کا فیض کامل وذاتی زمین ہی پر ہے بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے ، ، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب کمال لطافت کے۔ اور آدم (علیہ السلام) کی ترکیب جسمی چونکہ خاکی عنصر سے ہوئی ہے، اور ان کے اخلاق کی عالم ملکوت سے اور ان کی روح کی عالم امرونور سے، اس لیے ان میں صلاحیت فیضان بھی غایت کمال کی قرار پائی۔ 1 1 1 ۔ اللہ معاف کرے، یہاں کلام کے سمجھنے میں بعض اکابر سے تسامحات ہوگئے ہیں۔ فرشتوں کا یہ قول بہ اعتراض یا گستاخی کے نہ تھا۔ فرشتے تو گستاخی کر ہی نہیں سکتے۔” باغی فرشتوں “ کا تخیل تمامتر مسیحی ہے۔ اور عجب نہیں کہ مسیحیوں ہی کیساتھ تعلقات قائم ہوجانے سے یہ خیال مسلمان علماء میں سرایت کرگیا ہو۔ فرشتوں کا یہ قول تمامتر وفور نیاز مندی، اقرار وفاداری اور جوش جان نثاری کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ ہمارے محققین نے صراحۃ سمجھا ہے۔ لیس علی وجہ الاعتراض علی اللہ ولا علی وجہ الحسد لبنی ادم کما قد تیوھمہ بعض المفسرین (ابن کثیر) ولیس باعتراض علی اللہ تعالیٰ ولا طعن فی بن ادم علی وجہ الغیبۃ فانہم اعلی من ان تظن بھم ذلک (بیضاوی) لیس المقصود الا الاستفسار عن المرجح لا العجب والتفاخر (روح) علی طریقۃ قول من یجد فی خدمۃ مولاہ وھو یامربھا غیرہ اتستخدم العصاۃ وانا مجتھد فیھا (ابوسعود) بہترین تقریر اس سلسلہ میں وہ ہے جو ہمارے شیخ وقت مفسر تھانوی مدظلہ نے کی ہے۔ وہ ذیل میں بجنسہ نقل ہے :۔ ” مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں، اور ان میں کوئی کوئی مفسد وسفاک بھی ہوگا۔ سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے تو ہم سب لگ لپٹ کر اس کو انجام دیں گے۔ اور وہ لوگ سب اس کام کے نہ ہوں گے۔ البتہ جو مطیع ہوں گے وہ تو جان ودل سے اس میں لگ جائیں گے مگر جو مفسد و ظالم ہوں گے ان سے کیا امید ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں۔ خلاصہ یہ کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا ہوگا کوئی نہ ہوگا۔ اس خدمت کے لیے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ بہ طور اعتراض کے نہیں کہا۔ نہ اپنا استحقاق جتلایا، جو ان مقدس خدمتگاروں پر شبہات پیدا ہوں، بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی حاکم نیا کام تجویز کرکے اس کے لیے ایک مستقل عملہ بڑھانا چاہے، اور اپنے قدیمی عملہ سے اس کا اظہار کرے، وہ لوگ اپنی جاں نثاری کی راہ سے عرض کریں کہ حضور جو لوگ اس کام کے لیے تجویز ہوئے ہیں ہم کو کسی طرح تحقیق ہوا ہے کہ بعض بعض تو اس کو بخوبی انجام دے سکیں گے اور بعض بالکل ہی کام بگاڑدیں گے۔ جن سے حضور کا مزاج ناخوش ہوگا۔ آخرہم کس مرض کی دوا ہیں۔ ہر وقت حضور پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اور حضور کی جان ومال کو دعا دیتے رہتے ہیں۔ کیساہی کام کیوں نہ ہو حضور کے اقبال سے اس کو انجام دے نکلتے ہیں، کبھی کسی خدمت میں ہم غلاموں نے عذر نہیں کیا۔ اگر وہ نئی خدمت بھی ہم کو عنایت ہوگی تو ہم کو کوئی عذر و انکار نہ ہوگا۔ اسی طرح فرشتوں کی عرض ومعروض اظہار نیاز مندی کے واسطہ تھی، اور یہ بات کسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے معلوم کرادی ہوگی کہ بنی آدم میں برے بھلے سب ہی طرح کے ہوں گے۔ (آیت) ” تجعل فیھا۔ یفسد فیھا “۔ ضمیر ھا دونوں جگہ ارض (روئے زمین) کے لیے ہے۔ (آیت) ” فیھا “ کی تکرار شدت فساد کے اظہار کے لیے ہے۔ و تکرار الظرف للدلالۃ علی الافراط فی الفساد (روح) (آیت) ” اتجعل فیھا الخ “ مطلب یہ ہے کہ یہ جدید مخلوق اور اس کی ذریات آپ کے قوانین کی نافرمانی بھی کرے گی۔ اور نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روئے زمین پر مادی ومعنوی دونوں حیثیتوں سے فساد برپا ہو کر رہے گا۔ فرشتوں کی یہ ساری عرض ومعروض ان کی کسی غیب دانی کی بنا پر نہیں، بلکہ نیابت الہی وخلافت ربانی کا نام سن کر خود ہی انہوں نے اندازہ لگالیا تھا قواے بشری کی ترکیب کا بھی اور زمینی مخلوق کی ضرورتوں اور طبیعی تقاضوں کا بھی۔ اور اس سے یہ نتیجہ خود بخود ان کے سامنے آگیا تھا کہ زمین پر شروفساد بھی ہوگا اور انسانوں میں سے باغی ونافرمان بھی پیدا ہوں گے۔ (آیت) ” بحمدک “ میں ب تسبیح کے ساتھ حمد کے دوام معیت کے اظہار کے لیے ہے۔ الباء لا ستدامۃ الصحبۃ والمعیۃ (روح) لک من ل اظہار تخصیص کے لیے ہے۔ یعنی تقدیس خاص تیری رضاہی کے لیے ہے۔ اشعارا بان ایقاع الفعل لاجل اللہ تعالیٰ وخالصا لوجھہ سبحانہ ‘(روح) تسبیح اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار طاعات کے ہوتا ہے اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار طاعات کے ہوتا ہے اور تقدیس کا بلحاظ اعتقادات کے (روح) ونحن میں و حالیہ ہے والواء للحال (کبیر) بما فھموہ من الطبیعۃ البشریۃ (ابن کثیر) انھم عرفوا خلقتہ وعرفوا انہ مرکب من ھذہ والاخلاط الاربعۃ (کبیر) والاحتیاج الی الحاکم والقاضی انما یکون عند التنازع والتظالم فکان الاخبار عن وجود الخلیفۃ اخبارا عن وقوع الفساد بطریق الالتزام (کبیر) علموا ذلک من تسمیتہ خلیفۃ لان الخلافۃ تقتضی الاصلاح وقھر المستلخلف علیہ وھو یستلزم ان یصدر منہ فساد (روح) بعض نے یہ بھی کہا کہ انسانی آبادی سیق بل روئے زمین پر جو جنات آباد تھے، ان کی سرشت و فطرت پر قیاس کرکے فرشتے یہ سمجھے۔ کما فعل بنوالجآن فقاسوا الشاھد علی الغائب (معالم) توریت میں اس مخلوق کا ذکر بصراحت موجود ہے۔ دنیا میں دیوتا پرستی کی بیماری فرشتوں ہی کے فرائض کی غلط تشخیص سے پیدا ہوئی ہے۔ آگ کے فرشتوں کو جاہلی قوموں نے اگنی دیوتا مان لیا۔ بارش کیف رشتہ کو اندر دیوتا وقس علی ھذا۔ قرآن نے (آیت) ” نحن نسبح بحمدک ونقدس لک “ فرشتوں کی زبان سے کہلا کر ان کی عبدیت محض پر انھیں کی زبان سے، ایک مہر لگا دی۔ فرشتے یہاں صاف صاف عرض کررہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ 112 ۔ (مصالح کائنات ومخلوقی حاجات کے سلسلہ میں) مطلب یہ ہوا کہ تمہیں اس کی کیا خبر کہ عبدیت کے علاوہ نیا کام خلافت الہی کا جو اس نئی مخلوق سے لیا جانے والا ہے، اور اس کے لیے جن صلاحیتوں اور جس قسم کی استعداد کی ضرورت ہے، وہ تمہارے اندر کہاں تک موجود ہیں۔ انی اعلم من المصلحۃ الراجحۃ فی خلق ھذا الصنف علی المفاسد التی ذکر تموھا مالاتعلمون (ابن کثیر) دیوتا پرستی پر ایک اور ضرب لگی۔ ملائکہ پرستوں کو ان کے جہل پر ایک اور تنبیہ کی گئی، کہ صفات خلق، قدرت وغیرہ الگ رہیں، محض ان مصالح کے علم کے لحاظ سے بھی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ سے کیا نسبت ؟ کہاں علم محدود، کہاں علم نامحدود ؟
Top