Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرو)
108
۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا،
109
۔ میں زمین پر اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں،
110
۔ وہ بولے کیا تو اس میں ایسے کو بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا درآنحالیکہ ہم تیری حمد کی تسبیح کرتے رہتے ہیں،
1
1
1
۔ اور تیری پاکی پکارتے رہتے ہیں ؟ (اللہ نے) فرمایا یقیناً میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
112
۔
108
۔ اذظرف زمان ہے، کسی گزشتہ واقعہ کی یاد دلانے کے موقع پر آتا ہے۔ جس طرح (آیت) ” اذا “ کسی واقعہ مستقبل پر آتا ہے۔ اذ ظرف موضوع لزمان نسبۃ ماضیۃ وقع فیھا نسبۃ اخری مثلھا (ابوسعود) بعض نے اذکر اس کے قبل مقدر مانا ہے۔ ھو نصب باضمار الذکر والمعنی اذکرلھم (کبیر) واذکروا فعلی بابیکم (کبیر) ابوعبیدہ لغوی نے کہیں کہہ دیا تھا کہ اذ یہاں زائد ہے۔ اس کی شدومد سے تردید اہل لغت وائمہ تفسیر دونوں نے کی ہے۔ قال ابن اسحاق ھذا اقدام عن ابی عبیدہ (لسان) قال الزجاج ھذا اجتراء عن ابی عبیدۃ (ابن کثیر) ردہ ابن جریر قال القرطبی وکذاردہ جمیع المفسرین (ابن کثیر)
109
(آفرینش آدم (علیہ السلام) کے وقت) سورة کے رکوع اول میں بیان فطرت انسانی کا تھا کہ قرآن کے مخاطبین میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک اس کے پیام کو قبول کرنے والے، صالح وسلیم فطرت رکھنے والے، دوسرے بدفطرت، بیام الہی سے انکار کرنے والے، دوسرے رکوع میں مخاطبین کی ایک تیسری نوع کا بیان تھا۔ تیسرے رکوع میں اصل پیام کا لب لباب سنا دیا گیا۔ یعنی توحید و رسالت کی تبلیغ کردی گئی۔ اب اس چوتھے رکوع میں اس تبلیغ کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یعنی یہ پیام ابتداء نسل انسانی کے بانی ومورث حضرت آدم (علیہ السلام) کو دیا گیا، اور ان سے نسل بہ نسل منتقل ہوتا آیا ہے۔ ملئکۃ جمع ہے ملک کی۔ اور وہ الوک سے ہے، جس کے معنی پیامبری یا پیام رسانی کے ہیں، الالوک الرسالۃ ومنہ الکنی اے ابلغہ رسالتی (راغب) من الالوکۃ وھی الرسالۃ (روح) ملائکہ کو ملائکہ کہتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کا اصل کام پیام رسانی ہوتا ہے۔ اور یہ خالق کے پیامات مخلوق تک لایا کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے ایجنٹ یا واسطے ہیں۔ لانہم وسائط بین اللہ تعالیٰ وبین الناس فھم رسل اللہ او کالرسل الیھم (بیضاوی) اردو میں انہیں کو فرشتہ کہتے ہیں۔ فرشتے نوری مخلوق ہوتے ہیں، وجود خارجی رکھتے ہیں، محض صفات الہی یا قوائے طبیعی کے مرادف نہیں، عادۃ انسان کے لیے غیر مرئی رہتے ہیں۔ حسب ضرورت مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں۔ اجسام لطیفۃ ھو ائیۃ تقدر علی التشکل باشکال مختلفۃ مسکنھا السموت وھذا قول اکثر المسلمین (کبیر) ذھب اکثر المسلمین الی انھا اجسام لطیفۃ قادرۃ علی التشکل باشکال مختلفۃ مستدلین بان الرسل کانوا یرونھم کذلک (بیضاوی) ان کی الاانتہاتعداد اللہ ہی کے علم میں ہے۔ وجود میں انسان پر تقدم زمانی رکھتے ہیں۔ سرشت معصومانہ ہوتی ہے۔ یعنی بدی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خالق کے خالص فرمانبردار خادم ہوتے ہیں۔ مخلوق، محکوم، بندے ہونے میں بالکل انسان ہی جیسے ہیں، خود کوئی معبودانہ یا نیم معبودانہ حیثیت دیوی دیوتا کی قسم کی مطلق نہیں رکھتے۔ اور یہیں سے رد ہوجاتا ہے ان باطل مذہبوں کا جنہوں نے ملائکہ کو خواہ اسی نام کے ساتھ، خواہ انہیں دیوی دیوتا قرار دے کر خالق و مخلوق کے درمیان ایک برزخی درجہ دے رکھا ہے (آیت) ” للملئکۃ “ میں لام تبلیغ کا ہے۔ اللام الجارۃ للتبلیغ (روح)
110
(عنقریب اپنی حکومت کی تنفیذ کے لیے) اللہ اللہ ! خاک کے پتلے کا یہ شرف و مرتبہ ! اللہ کی مخلوق تو اس وقت تک بھی بیشمار تھی۔ اب ان میں انسان نامی محض ایک نئی صنف کا اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ بلکہ اللہ کا نائب زمین پر پیدا کیا جارہا ہے ! بعض اہل تحقیق نے یہیں سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ تخلیق تو ساری ہی موجودات کی ہوئی ہے جنات کی بھی اور ملائکہ کی بھی، جنت کی بھی اور عرش کی بھی۔ لیکن اور کسی کے بھی قصد تخلیق کے ذکر کا اہتمام قرآن مجید نے نہیں کیا ہے۔ یہ فخر صرف خلقت آدم (علیہ السلام) کے حصہ میں آیا۔ اور یہ دلیل ہے آدم (علیہ السلام) کی افضلیت واشرفیت کی۔ ولم یقل انی خالق عرشا اوجنۃ اوملکا وان قال ذلک تشریفا وتخصیصا لادم (بحر) (آیت) ” خلیفۃ “ اسے کہتے ہیں جو کسی کی نیابت کرے، خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں، یا اس لیے کہ فوت ہوچکا، یا اس لیے کہ معذور ہے اور خواہ اس لیے کہ اس سے مسختلف کی تعظیم ظاہر ہو۔ الخلافۃ النیابۃ من الغیر اما لغیبۃ المنوب عنہ واما لموتہ واما لعجزہ واما لتشریف المستخلف (راغب) اور خلیفۃ اللہ وہ ہے جو زمین پر اللہ کی شریعت کی حکومت قائم کرے، یخلفنی فی الحکم بین خلقی وذلک الخلیفۃ ھو ادم ومن قام مقامہ فی طاعۃ اللہ والحکم بالعدل بین خلقہ (ابن جریر، عن ابن عباس وابن مسعود ؓ خلیفۃ اللہ فی ارضہ الاقامۃ احکامہ وتنفیذ قضا یاہ (معالم) یہیں سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ انسان کو جو قوی ملیں گے وہ اس غایت ومقصود یعنی منصب خلافت الہی کے متناسب ملیں گے۔ نسل انسانی خود اپنی صلاح و فلاح کے لیے اس کی محتاج تھی اور محتاج ہے کہ اپنے کسی ہم جنس کے واسطہ سے شریعت الہی سے استفادہ کرے، اور سلسلہ نبوت اسی غرض سے قائم ہوا ہے۔ والمراد بہ ادم وکذلک کل نبی استخلفہم اللہ فی عمارۃ الارض وسیاسۃ الناس وتکمیل نفوسھم وتنفیذ امرہ فیھم (بیضاوی) واضح رہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے بھی انسان، نوع انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت ونیابت الہی پر نہیں رکھا ہے۔ اور خیر جاہلی مذہبوں کا تو ذکر ہی نہیں، خود یہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت دونوں اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہیں۔ بائبل میں اس موقع پر ذکر اس قدر ہے :۔” خداوند خدا نے زمین پر پانی نہ برسایا تھا اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سئے بخار اٹھتا تھا اور تمام روئے زمین کو سیراب کرتا تھا، اور خداوند خدا نے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا “ (پیدائش
2
:
5
۔
7
) گویا جس طرح اور سب حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک ” جاندار “ آدم بھی پیدا ہوگیا۔ اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ ” زمین کی کھیتی “ کرے ! کہاں یہ اتنا طویل لیکن بےمغز، انسان کو کاشتکاری تک محدود رکھنے والا بیان، اور کہاں قرآن مجید کا باوجود شدت اختصار انسان کو مرتبہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ خلافت الہی پر پہنچا دینے والا، بلند وجامع اعلان ! بعض صوفیہ نے یہیں سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ جو ہر خاک کو شرف خلافت اس لیے عطا ہوا کہ کثافت ہی فیضان اتم کے قابل اور تحمل نورانیت کے لائق ہے۔ اور بعض عارفین کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے کہ نور آفتاب کا فیض کامل وذاتی زمین ہی پر ہے بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب اس کے کمال کثافت کے۔ اور پانی اور ہوا اور آگ پر یہ فیضان صرف صفاتی ہے ، ، اس لیے کہ کثافت ان میں کم ہے۔ اور اجرام علویہ تو اس نورانیت کے صرف سایہ وعکس ہی سے مستفیض ہوسکتے ہیں بہ سبب کمال لطافت کے۔ اور آدم (علیہ السلام) کی ترکیب جسمی چونکہ خاکی عنصر سے ہوئی ہے، اور ان کے اخلاق کی عالم ملکوت سے اور ان کی روح کی عالم امرونور سے، اس لیے ان میں صلاحیت فیضان بھی غایت کمال کی قرار پائی۔
1
1
1
۔ اللہ معاف کرے، یہاں کلام کے سمجھنے میں بعض اکابر سے تسامحات ہوگئے ہیں۔ فرشتوں کا یہ قول بہ اعتراض یا گستاخی کے نہ تھا۔ فرشتے تو گستاخی کر ہی نہیں سکتے۔” باغی فرشتوں “ کا تخیل تمامتر مسیحی ہے۔ اور عجب نہیں کہ مسیحیوں ہی کیساتھ تعلقات قائم ہوجانے سے یہ خیال مسلمان علماء میں سرایت کرگیا ہو۔ فرشتوں کا یہ قول تمامتر وفور نیاز مندی، اقرار وفاداری اور جوش جان نثاری کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ ہمارے محققین نے صراحۃ سمجھا ہے۔ لیس علی وجہ الاعتراض علی اللہ ولا علی وجہ الحسد لبنی ادم کما قد تیوھمہ بعض المفسرین (ابن کثیر) ولیس باعتراض علی اللہ تعالیٰ ولا طعن فی بن ادم علی وجہ الغیبۃ فانہم اعلی من ان تظن بھم ذلک (بیضاوی) لیس المقصود الا الاستفسار عن المرجح لا العجب والتفاخر (روح) علی طریقۃ قول من یجد فی خدمۃ مولاہ وھو یامربھا غیرہ اتستخدم العصاۃ وانا مجتھد فیھا (ابوسعود) بہترین تقریر اس سلسلہ میں وہ ہے جو ہمارے شیخ وقت مفسر تھانوی مدظلہ نے کی ہے۔ وہ ذیل میں بجنسہ نقل ہے :۔ ” مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں، اور ان میں کوئی کوئی مفسد وسفاک بھی ہوگا۔ سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے تو ہم سب لگ لپٹ کر اس کو انجام دیں گے۔ اور وہ لوگ سب اس کام کے نہ ہوں گے۔ البتہ جو مطیع ہوں گے وہ تو جان ودل سے اس میں لگ جائیں گے مگر جو مفسد و ظالم ہوں گے ان سے کیا امید ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں۔ خلاصہ یہ کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا ہوگا کوئی نہ ہوگا۔ اس خدمت کے لیے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ بہ طور اعتراض کے نہیں کہا۔ نہ اپنا استحقاق جتلایا، جو ان مقدس خدمتگاروں پر شبہات پیدا ہوں، بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی حاکم نیا کام تجویز کرکے اس کے لیے ایک مستقل عملہ بڑھانا چاہے، اور اپنے قدیمی عملہ سے اس کا اظہار کرے، وہ لوگ اپنی جاں نثاری کی راہ سے عرض کریں کہ حضور جو لوگ اس کام کے لیے تجویز ہوئے ہیں ہم کو کسی طرح تحقیق ہوا ہے کہ بعض بعض تو اس کو بخوبی انجام دے سکیں گے اور بعض بالکل ہی کام بگاڑدیں گے۔ جن سے حضور کا مزاج ناخوش ہوگا۔ آخرہم کس مرض کی دوا ہیں۔ ہر وقت حضور پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اور حضور کی جان ومال کو دعا دیتے رہتے ہیں۔ کیساہی کام کیوں نہ ہو حضور کے اقبال سے اس کو انجام دے نکلتے ہیں، کبھی کسی خدمت میں ہم غلاموں نے عذر نہیں کیا۔ اگر وہ نئی خدمت بھی ہم کو عنایت ہوگی تو ہم کو کوئی عذر و انکار نہ ہوگا۔ اسی طرح فرشتوں کی عرض ومعروض اظہار نیاز مندی کے واسطہ تھی، اور یہ بات کسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے معلوم کرادی ہوگی کہ بنی آدم میں برے بھلے سب ہی طرح کے ہوں گے۔ (آیت) ” تجعل فیھا۔ یفسد فیھا “۔ ضمیر ھا دونوں جگہ ارض (روئے زمین) کے لیے ہے۔ (آیت) ” فیھا “ کی تکرار شدت فساد کے اظہار کے لیے ہے۔ و تکرار الظرف للدلالۃ علی الافراط فی الفساد (روح) (آیت) ” اتجعل فیھا الخ “ مطلب یہ ہے کہ یہ جدید مخلوق اور اس کی ذریات آپ کے قوانین کی نافرمانی بھی کرے گی۔ اور نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روئے زمین پر مادی ومعنوی دونوں حیثیتوں سے فساد برپا ہو کر رہے گا۔ فرشتوں کی یہ ساری عرض ومعروض ان کی کسی غیب دانی کی بنا پر نہیں، بلکہ نیابت الہی وخلافت ربانی کا نام سن کر خود ہی انہوں نے اندازہ لگالیا تھا قواے بشری کی ترکیب کا بھی اور زمینی مخلوق کی ضرورتوں اور طبیعی تقاضوں کا بھی۔ اور اس سے یہ نتیجہ خود بخود ان کے سامنے آگیا تھا کہ زمین پر شروفساد بھی ہوگا اور انسانوں میں سے باغی ونافرمان بھی پیدا ہوں گے۔ (آیت) ” بحمدک “ میں ب تسبیح کے ساتھ حمد کے دوام معیت کے اظہار کے لیے ہے۔ الباء لا ستدامۃ الصحبۃ والمعیۃ (روح) لک من ل اظہار تخصیص کے لیے ہے۔ یعنی تقدیس خاص تیری رضاہی کے لیے ہے۔ اشعارا بان ایقاع الفعل لاجل اللہ تعالیٰ وخالصا لوجھہ سبحانہ ‘(روح) تسبیح اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار طاعات کے ہوتا ہے اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار طاعات کے ہوتا ہے اور تقدیس کا بلحاظ اعتقادات کے (روح) ونحن میں و حالیہ ہے والواء للحال (کبیر) بما فھموہ من الطبیعۃ البشریۃ (ابن کثیر) انھم عرفوا خلقتہ وعرفوا انہ مرکب من ھذہ والاخلاط الاربعۃ (کبیر) والاحتیاج الی الحاکم والقاضی انما یکون عند التنازع والتظالم فکان الاخبار عن وجود الخلیفۃ اخبارا عن وقوع الفساد بطریق الالتزام (کبیر) علموا ذلک من تسمیتہ خلیفۃ لان الخلافۃ تقتضی الاصلاح وقھر المستلخلف علیہ وھو یستلزم ان یصدر منہ فساد (روح) بعض نے یہ بھی کہا کہ انسانی آبادی سیق بل روئے زمین پر جو جنات آباد تھے، ان کی سرشت و فطرت پر قیاس کرکے فرشتے یہ سمجھے۔ کما فعل بنوالجآن فقاسوا الشاھد علی الغائب (معالم) توریت میں اس مخلوق کا ذکر بصراحت موجود ہے۔ دنیا میں دیوتا پرستی کی بیماری فرشتوں ہی کے فرائض کی غلط تشخیص سے پیدا ہوئی ہے۔ آگ کے فرشتوں کو جاہلی قوموں نے اگنی دیوتا مان لیا۔ بارش کیف رشتہ کو اندر دیوتا وقس علی ھذا۔ قرآن نے (آیت) ” نحن نسبح بحمدک ونقدس لک “ فرشتوں کی زبان سے کہلا کر ان کی عبدیت محض پر انھیں کی زبان سے، ایک مہر لگا دی۔ فرشتے یہاں صاف صاف عرض کررہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔
112
۔ (مصالح کائنات ومخلوقی حاجات کے سلسلہ میں) مطلب یہ ہوا کہ تمہیں اس کی کیا خبر کہ عبدیت کے علاوہ نیا کام خلافت الہی کا جو اس نئی مخلوق سے لیا جانے والا ہے، اور اس کے لیے جن صلاحیتوں اور جس قسم کی استعداد کی ضرورت ہے، وہ تمہارے اندر کہاں تک موجود ہیں۔ انی اعلم من المصلحۃ الراجحۃ فی خلق ھذا الصنف علی المفاسد التی ذکر تموھا مالاتعلمون (ابن کثیر) دیوتا پرستی پر ایک اور ضرب لگی۔ ملائکہ پرستوں کو ان کے جہل پر ایک اور تنبیہ کی گئی، کہ صفات خلق، قدرت وغیرہ الگ رہیں، محض ان مصالح کے علم کے لحاظ سے بھی فرشتوں کو اللہ تعالیٰ سے کیا نسبت ؟ کہاں علم محدود، کہاں علم نامحدود ؟
Top