Dure-Mansoor - Al-Baqara : 270
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
وَمَآ : اور جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو گے مِّنْ : سے نَّفَقَةٍ : کوئی خیرات اَوْ : یا نَذَرْتُمْ : تم نذر مانو مِّنْ نَّذْرٍ : کوئی نذر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُهٗ : اسے جانتا ہے وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ اَنْصَارٍ : کوئی مددگار
جو کچھ کسی قسم کا خرچ کرتے ہو یا کسی طرح کی نذر مانتے ہو سو بلا شبہ اللہ اس کو جانتا ہے اور ظلم کرنے والوں کے لیے کوئی بھی مددگار نہیں۔
(1) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” وما انفقتم من نفقۃ او نذرتم من نذر فان اللہ یعملہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یعلمہ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ اس کو شمار کرتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کثرت عطیہ کا واقعہ (2) عبد الرزاق اور بخاری نے ابن شہاب کے طریق سے عوف بن حرث بن طفیل (رح) سے روایت کیا جو حضرت عائشہ ؓ کے ماں شریک بھتیجے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زبیر ؓ نے اس عطیہ کے بارے میں فرمایا جو حضرت عائشہ ؓ نے عطا کیا تھا کہ اللہ قسم ! حضرت عائشہ (اس سخاوت سے) باز آجائیں یا میں ان پر پابندیاں لگادوں گا (یہ بات جب ان کو پہنچی) تو انہوں نے پوچھا کیا اس نے یہ بات کہی ہے ؟ لوگوں نے کہا ہاں ! تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں اللہ کے لیے نذر مانتی ہوں کہ ابن زبیر سے کبھی بھی بات نہیں کروں گی۔ ابن زبیر ؓ نے مہاجرین کے ذریعہ سفارش کرائی جب ان کا قطع تعلق لمبا ہوگیا اور فرمایا میں اس بات میں کبھی بھی کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور میں اپنی نذر کو نہیں توڑوں گی جو میں نے نذر کی قسم کھائی ہے۔ جب ابن زیبر ؓ پر وقت زیادہ گذر گیا تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن اسود بن عبد یغوث سے بات کی وہ دونوں بنو زہرہ میں سے تھے ان سے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم دونوں مجھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس داخل کر دو اس لیے کہ ان کے لیے مجھ سے قطع کلامی کی نذر ماننا حلال نہیں۔ مسور اور عبد الرحمن نے ان کو اپنی چادر میں چھپالیا اور حضرت عائشہ ؓ سے (اندر جانے کی اجازت مانگی) انہوں نے فرمایا داخل ہوجاؤ پھر انہوں نے پوچھا کیا ہم سب داخل ہوجائیں ؟ اے ام المؤمنین ! فرمایا ہاں سب داخل ہوجاؤ حضرت عائشہ ؓ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے ساتھ ابن زبیر ؓ بھی ہیں جب دروازے کے اندر گئے تو ابن زبیر ؓ پردہ کے اندر داخل ہوگئے اور حضرت عائشہ ؓ سے لپٹ گئے اور ان کو قسم دینا اور رونا شروع کردیا مسور اور عبدالرحمن ؓ نے بھی حضرت عائشہ ؓ کو قسمیں دینا شروع کیں کہ عبداللہ بن زبیر ؓ سے بات کرلیں اور ان سے (معذرت) قبول کرلیں اور دونوں حضرات کہتے رہے کہ آپ جانتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قطع تعلق سے منع فرمایا ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے (یعنی اس سے قطع تعلق کرلے) جب انہوں نے بہت اصرار کیا اور نصیحت کی حضرت عائشہ ؓ نے روتے ہوئے ان سے فرمایا کہ میں نے سخت نذر مانی ہوئی ہے وہ لوگ برابر ان کو نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر ؓ (اپنے بھانجے) سے بات کرلی اور اپنی نذر کے کفارہ کے طور پر چالیس غلاموں کو آزاد فرمایا ان غلاموں کے آزاد کرنے کے بعد بھی وہ اس (نذر) کو یاد کر کے اتنا روتی تھیں کہ ان کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہوجاتا تھا۔ (3) ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن حجیرہ اکبر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا میں نے اپنے بھائی سے نہ بولنے کی نذر مانی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ شیطان کا ایک بچہ پیدا ہوا تھا جس کا نام اس نے نذر رکھا تھا اور جس شخص نے ان تعلقات کو ختم کرنے کی نذر مانی جس کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم فرمایا ہے تو اس پر لعنت اترتی ہے۔ (4) مالک، ابن ابی شیبہ، بخاری، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس بات کی نذر مان لی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اس کو چاہیے کہ اطاعت کرے اور جس شخص نے اس بات کی نذر مان لی کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا تو اس کو چاہیے نافرمانی نہ کرے۔ (5) ابو داوئد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی اس کو چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مان لی اس کو چاہیے کہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ (6) ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا گناہ کی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ گناہ کی نذر پوری کرنا لازم نہیں (7) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا ہے کہ انصار میں سے ایک عورت قید کرلی گئی اور غضباء اونٹنی بھی پکڑی گئی وہ عورت اس اونٹنی کی پشت پر بیٹھ گئی پھر اس عورت نے اس کو ڈانٹا تو وہ چل پڑی اور اس نے یہ نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی پر نجات دے دی تو میں اس کو ذبح کر دوں وہ جب مدینہ منورہ آئی تو لوگوں نے دیکھا اور کہنے لگے کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی غضباء ہے وہ عورت کہنے لگی میں نے تو نذر مان لی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے ذریعہ نجات دی تو میں اس کو ذبح کروں گی۔ لوگ اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے اور یہ بات ان کو بتائی تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ! اس نے کتنی جزادی ہے اس نے اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر اس کے ذریعہ نجات دی تو وہ اس کو ذبح کرے گی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر کو پورا نہیں کیا جائے گا اور نہ اس چیز میں نذر کو پورا کیا جائے گا جس کا انسان مالک نہیں۔ (8) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر کا کفارہ جب وہ نام نہ لے (متعین نہ کرے) تو قسم والا کفارہ ہے۔ (9) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کسی بندہ پر اس نذر کا پورا کرنا لازم نہیں ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔ (10) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے نذر (ماننے) سے منع فرمایا کہ نذر خیر کو نہیں لاتی اور بلا شبہ اس کے ذریعے بخیل سے مال نکالا جاتا ہے۔ (11) مسلم، ترمذی، اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نذر مت مانو کیونکہ نذر تقدیر کا ٹالنے کا فائدہ نہیں دیتی اور بلاشبہ ( اس کے ذریعے) بخیل سے مال نکالا جاتا ہے۔ (12) بخاری، مسلم، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابن آدم کو نذر کوئی چیز نہیں پہنچاتی جو میں نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھی بلکہ نذر کبھی اس تقدیر سے موافقت کر جاتی ہے جو میں نے اس کے لیے لکھی ہوتی ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ بخیل سے (مال) نکالتے ہیں پس وہ مال خرچ کرتا ہے جو اس سے پہلے وہ خرچ کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ (13) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جو اپنے بیٹوں کے درمیان (پیدل) چل رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا اس کو کیا ہوا (پیدل کیوں چل رہا ہے ؟ ) صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اس نے کعبہ تک پیدل چلنے جانے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی جان کو عذاب دینے سے بےپرواہ ہیں اور اس کو سوار ہونے کا حکم فرمایا۔ بلا وجہ اپنے کو مشقت میں ڈالنا درست نہیں (14) مسلم اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک بوڑھے کو اپنے بیٹوں پر سہارا لیتے ہوئے پیدل چلتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے پوچھا اس کو کیا ہوا ؟ اس کے بیٹوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے (پیدل چلنے) کی نذر مانی تھی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے بوڑھے سوار ہوجا اللہ تعالیٰ تجھ سے اور تیری نذر سے بھی بےپرواہ ہے۔ (15) بخاری، مسلم، ابو داؤد، اور نسائی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ میری بہن نے بیت اللہ کی طرف پیدل ننگے پاؤں جانے کی نذر مانی اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پیدل بھی چلنا چاہیے اور سوار ہو کر بھی۔ (16) ابوداؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ عقبہ بن عامر ؓ کی بہن نے نذر مانی کہ وہ پیدل حج کرے گی حالانکہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تھی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ تیری بہن کے پیدل چلنے سے بےپرواہ ہے اس کو چاہئے کہ سوار ہوجائے اور چاہئے کہ ایک اونٹ ہدیہ دے۔ (17) ابو داؤد اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میری بہن نے نذرمانی ہے کہ وہ پیدل حج کرے گی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ تیری بہن کو ذرا بھی مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے اس کو چاہئے کہ سوار ہو کر حج کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔ (18) ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ سے اپنی بہن کی نذر کے بارے میں پوچھا کہ وہ بغیر سر ڈھانکے اور ننگے پاؤں حج کرے گی آپ ﷺ نے فرمایا اس کو حکم کرو کہ وہ سر ڈھانکے اور سوار بھی ہوجائے اور تین دن کے روزے بھی رکھ لے۔ (19) بخاری، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا اس درمیان میں نبی اکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو ایک آدمی دھوپ میں کھڑا تھا آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے کہا یہ ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا، نہ بیٹھے گا، نہ سایہ میں جائے، نہ بات کرے گا، اور روزہ رکھے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اس کو حکم کرو کہ وہ بات کرے، سایہ میں بیٹھے اور اپنے روزہ کو پورا کرے۔ (20) ابو داؤد اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ایسی نذر مانی کہ اس کو متعین نہیں کیا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس شخص نے کسی گناہ کی نذر مانی اس کی وہ طاقت نہیں رکھتا تو اس کو کفارہ بھی قسم کا کفارہ ہے اور جس نے ایسی بات کی قسم کھائی کہ اس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ نذر کو پورا کرے۔ (21) نسائی نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا نذر دو قسم ہے جو نذر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے ہو تو وہ اللہ کے لیے ہے اور اس کو پورا کرنا (لازم) ہے اور جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سے ہو تو وہ شیطان کے لیے ہے اس کو پورا کرنا نہیں ہے اس کا کفارہ دے جو قسم کا کفارہ ہوتا ہے۔ (22) ابن ابی شیبہ، نسائی اور حاکم نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو بھی خطبہ دیا اس میں آپ نے ہم کو صدقہ کا حکم فرمایا اور مثلہ (یعنی قتل کرنے کے بعد اعضاء کاٹ دینا) کرنے سے منع فرمایا اور اس کی ناک کو کاٹ دینا بھی مثلہ کرنے میں سے ہے اور پیدل حج کرنے کی نذر سے منع فرمایا پس جس شخص نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی تو اس کو چاہئے کہ ہدی کا جانور (کفارہ میں) ذبح کرے اور سوار ہوجائے۔ (24) سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ قعیقعان پہاڑ پر رات تک ننگا کھڑا رہوں تو انہوں نے فرمایا شیطان نے یہ ارادہ کیا ہے کہ تیری شرمگاہ کو ننگا کر دے اور تجھ پر لوگوں کو ہنسائے اپنے کپڑے پہن لے اور حجر اسور کے پاس دو رکعت پڑھ۔ نذر کی چار قسمیں ہیں (25) عبد الرزاق اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نذر چار قسم پر ہیں جس شخص نے ایسی نذر مانی جس کو مسترد نہیں کیا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس نے کسی گناہ کی قسم کھائی تو اس کا کفارہ بھی قسم کا کفارہ ہے اور جس نے ایسی بات کی قسم کھائی جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ بھی قسم کا کفارہ ہے اور جس نے ایسی نذر مانی جس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اپنی نذر کو پورا کرے۔ لفظ آیت واما قولہ تعالیٰ ” وما للظلمین من انصار “۔ (26) ابن ابی حاتم نے شریح (رح) سے روایت کیا کہ ظالم سزا کا منتظر ہوتا ہے اور مظلوم مدد کا منتظر ہوتا ہے۔ (27) بخاری، مسلم اور ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔ (28) بخاری نے ادب میں، مسلم اور بیہقی نے شعب میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا اور کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا اور ان کو ناحق خون بہانے پر آمادہ کیا اور ان کو حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے پر آمادہ کیا۔ (29) بخاری نے ادب میں ابن حبان اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) بیہقی نے شعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔ اور بری باتون سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ برائی کرنے والے اور بدکلامی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔ اور کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ان کے ناحق خونوں کے بہانے پر آمادہ کیا اور حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھا اور قطع رحمی کی۔ (30) حاکم اور بیہقی نے شعب میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ظلم کرنے سے بچو کیونکہ قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا اور بدکاری اور بدکلامی کرنے بچو، اور کنجوسی سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ کنجوسی سے ہلاک ہوگئے اسی کنجوسی نے ان کو قطع رحمی کا حکم دیا تو انہوں نے قطع رحمی کرلی اور ان کو بخل کا حکم دیا تو انہوں نے بخل کیا اور ان کو نافرمانی کا حکم دیا تو وہ نافرمانی کرنے لگے۔ خیانت سے بچنے کی تاکید (31) الطبرانی نے ہرماس بن زیاد ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی اونٹنی پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا آپ نے فرمایا بچو تم خیانت سے کیونکہ وہ چھپی ہوئی بری خصلت ہے اور ظلم ہے اور ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہوگا اور کنجوسی سے بچو کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کردیا یہاں تک کہ انہوں نے اپنے خونوں کو بہایا اور قطع رحمی کی۔ (32) اصبہانی نے عمر بن خطاب ؓ سے اسی کے مثل نقل کیا ہے۔ (33) الطبرانی نے حضرت ابن عمر ؓ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ظلم نہ کرو ورنہ تم دائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی، بارش طلب کرو گے تو بارش نہ ہوگی، مدد طلب کرو گے تو تمہاری مدد نہ کی جائے گی۔ (34) الطبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت میں دو قسم کے ایسے لوگ ہوں گے جن کو ہرگز میری شفاعت نہ پہنچے گی انتہائی ظالم (امام بہت ظلم کرنے والا اور بہت خیانت کرنے والا) (اور) دین سے نکل جانے والا۔ (35) حاکم نے (اور اس کو صحیح کہا) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مظلوم کی بد دعا سے ڈرو کیونکہ آسمان کی طرف اس طرح چڑھتی ہے گویا کہ وہ ایک شعلہ ہے۔ (36) الطبرانی نے عقبہ بن جہنی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمیوں کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں والد کی دعا (اولاد کے حق میں) مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔ (37) احمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مظلوم کی دعا قبول کی جاتی ہے اگرچہ وہ گناہ گار ہو کیونکہ اس کے گناہ کا وبال اس کی اپنی جان پر ہے۔ (38) الطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو دعائیں ایسی ہیں کہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں مظلوم کی دعا اور کسی آدمی کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے۔ (39) الطبرانی نے خزیمہ بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مظلوم کی بددعا سے ڈرو کیونکہ وہ بادلوں سے (اوپر) اٹھالی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری عزت اور میرے جلال کی قسم میں تیری ضرور مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر کے بعد ہو۔ (40) احمد نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مظلوم کی بددعا سے ڈرو اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اس لیے کہ کیونکہ اس کے سامنے حجاب نہیں۔ (41) حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرا غصہ تیز ہوجاتا ہے اس شخص پر جو ایسے شخص پر ظلم کرتا ہے جو میرے علاوہ کسی دوسرے کو مدد کرنے والا نہیں پاتا۔ (42) ابو الشیخ ابن حبان نے کتاب التوبیخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ! میں ظالم سے ضرور بدلہ لوں گا جلدی میں یا دیر میں اور میں ضرور بدلہ لوں گا اس شخص سے بھی جو مظلوم کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا تھا مگر پھر بھی مدد نہ کی۔ (43) الطبرانی نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو وہ سب اپنے سر اٹھائے اپنے قدموں پر برابر کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے ہمارے رب ! آپ کس کے ساتھ ہیں ؟ تو رب تعالیٰ نے فرمایا میں مظلوم کے ساتھ ہوں تک کہ (ظالم) اس کی طرف اس کا حق ادا کردے۔ (44) ابن مردویہ اور الطبرانی نے ترغیب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے ملک میں لوگوں سے چھپ کر پھرنے لگا یہاں تک کہ وہ ایک آدمی کے پاس آیا جس کی ایک گائے تھی شام کے وقت وہ گائے آئی تو اس کو دوھا گیا اچانک اس کا دودھ تیس گایوں کے برابر تھا (یعنی بہت زیادہ دودھ تھا) بادشاہ کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ یہ گائے اس آدمی سے لے لوں گا جب صبح ہوئی تو وہ گائے اپنی چراگاہ کی طرف چلی گئی پھر شام کو آئی تو اس کو دوھا گیا تو اس کا دودھ آدھا نکلا یعنی پندرہ گایوں کے برابر۔ بادشاہ نے مالک کو بلایا اور کہا مجھے اپنی گائے کے بارے میں بتاؤ کیا آج یہ گائے کل والی چراگاہ کے علاوہ کسی دوسری چراگاہ پر گئی تھی آج اس نے کسی دوسرے گھاٹ سے پانی پیا ہے ؟ مالک نے کہا اس گائے نے کل والی چراگاہ سے کسی دوسری چراگاہ پر نہیں چرا اور نہ ہی اس نے کسی دوسرے گھاٹ سے پانی پیا ہے ؟ تو بادشاہ نے کہا پھر اس کا دودھ کیوں آدھا ہوگیا مالک نے کہا بادشاہ نے ارادہ کیا ہے کہ اس گائے کو لے لے۔ اس لیے اس کا دودھ کم ہوگیا کیونکہ جب بادشاہ ظلم کرے یا ظلم کا ارادہ کرے تو برکت چلی جاتی ہے بادشاہ نے کہا بادشاہ تجھے کیسے جان لے گا ؟ مالک نے کہا بات اسی طرح ہے جو میں نے تجھ سے کہی ہے ( اس بات پر بادشاہ نے دل میں اپنے رب سے یہ وعدہ کیا کہ وہ (کبھی) ظلم نہیں کرے گا اور نہ اس گائے کو لے گا اور نہ اس کا کبھی مالک ہے وہ گائے صبح کو چرنے چلی گئی (جب) شام کو آئی تو اس کو پھر دوھا گیا تو اس کا دودھ (پہلے کی طرح) تیس گایوں کی مقدار پر ہوا۔ بادشاہ نے اپنے دل میں کہا اور عبرت حاصل کی کہ بادشاہ جب ظلم کرے یا ظلم کا ارادہ کرے تو برکت چلی جاتی ہے یقیناً میں ضرور عدل کروں گا اور ضرور بہتر عدل کرنے والوں میں سے ہوں گا۔ (45) الاصبہانی نے سعید بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا ہے جس نے نیک کام کیا اس کو چاہئے کہ ثواب کی امید رکھے جس نے براکام کیا پھر وہ سزا کو ناپسند نہ کرے جس نے بغیر حق کے عزت حاصل کی اللہ تعالیٰ اس کو حق کے ساتھ ذلت کا وارث بنائیں گے اور جس نے ظلم کے ساتھ مال جمع کیا اللہ تعالیٰ اس کو بغیر ظلم کے فقیر (یعنی محتاج یا تنگ دستی) کا وارث بنائیں گے۔ (46) احمد نے زہد میں وھب بن منبہ سے روایت کیا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا جس شخص نے فقراء کے مال کے ساتھ مالداروں کو طلب کیا میں اس کو فقیر بنا دوں گا اور ہر وہ گھر جو ضعیف لوگوں کی قوت سے بنے گا اس کا انجام خراب کر دوں گا۔
Top