Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 17
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں التَّوْبَةُ : توبہ قبول کرنا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (اللہ کے ذمے) لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السُّوْٓءَ : برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر يَتُوْبُوْنَ : توبہ کرتے ہیں مِنْ قَرِيْبٍ : جلدی سے فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں يَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلَيْھِمْ : ان کی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
توبہ جس کا قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے ان لوگوں کے لئے ہے جو نادانی میں کوئی فعل کر بیٹھتے ہیں اور اس کے بعد فوراً ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
آیت نمبر 17-18 لغات القرآن : التوبہ، توبہ، (لوٹنا) ۔ السوء، برائی ، گناہ۔ بجھالۃ، جہالت، نادانی۔ یتوبون، وہ توبہ کرتے ہیں۔ یعملون، عمل کرتے ہیں۔ السیات، (سیئۃ) برائی، گناہ۔ تبت، میں نے توبہ کرلی۔ اعتدنا، ہم نے تیار کیا ہے۔ تشریح : گذشتہ آیات میں بدکار مردوں اور بدکار عورتوں کی سزا کے بعد اللہ تعالیٰ نے توبہ کا ذکر فرمایا تھا۔ اب سورة النساء کی آیت 17، 18 میں توبہ قبول ہونے اور نہ ہونے کی صورتوں کا بیان فرمایا ہے۔ توبہ کے لفظی معنی ہیں ” لوٹنا “ واپس آنا ۔ جس جگہ کو چھوڑا تھا وہیں پلٹ کر واپس آنا۔ جب کوئی انسان گناہ کرتا ہے تو گویا وہ اللہ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے لیکن جب وہ ندامت کے آنسوؤں کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پلٹ کر آتا ہے اور اس بات کا عہد کرتا ہے کہ جو خطا اس سے سرزد ہوگئی ہے اس پر وہ ہمیشہ کے لئے شرمندہ ہے اور اب آئندہ نہ کرنے کا وہ اللہ سے عہد کر رہا ہے۔ تو یہ توبہ کہلائے گی اگر کوئی شخص زبان سے تو ” توبہ توبہ “ کہہ رہا ہے لیکن ذہن کے کسی گوشے میں تصور گناہ بھی موجود ہے تو یہ سراسر دھوکہ ہے ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ توبہ کا منشا ہی یہ ہے کہ اب وہ گناہ کے راستے سے پلٹ کر آگیا ہے اور نیکی کے ساتھ زندگی گزارنے کا بھرپور عزم رکھتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں توبہ کے لیے یہ شرط ہے کہ گناہ کو برا سمجھ کر اسے چھوڑ دینا، جو کچھ خطا ہوچکی اس پر نادم اور شرمندہ ہونا۔ اس غلطی کو دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا۔ جن کاموں کا تدارک ہو سکتا ہے اسے دور کرنا یعنی اگر کوئی گناہ ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اس کو ادا کرنا اور اگر حقوق اللہ سے ہے تو اس کی قضا کرنا۔ جیسے چھوڑی ہوئی نمازیں اور روزے وغیرہ۔ جب یہ باتیں پوری ہوں گی تب تو بہ قبول کی جائے گی۔ لیکن وہ شخص جو گناہوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے مگر اس کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی وہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ ابھی تو کافی وقت پڑا ہے توبہ کرلیں گے جب موت کے فرشتے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں تو پھر وہ شخص کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں۔ اسی طرح وہ شخص جو کفر پر جما ہوا ہے اور اس کو موت آجاتی ہے تو اللہ ایسے لوگوں کی توبہ کو قبول نہیں کیا کرتا۔
Top