Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 17
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں التَّوْبَةُ : توبہ قبول کرنا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (اللہ کے ذمے) لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السُّوْٓءَ : برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر يَتُوْبُوْنَ : توبہ کرتے ہیں مِنْ قَرِيْبٍ : جلدی سے فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں يَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلَيْھِمْ : ان کی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
بیشک توبہ کی قبولیت اللہ کے ذمے ان لوگوں کے لیے ہے جو برائی نادانی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ پھر توبہ کرلیتے ہیں جلدی ، یہی لوگ ہیں جن کے اوپر اللہ تعالیٰ (مہربانی) سے رجوع فرماتا ہے اور بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے
ربط آیات پہلے وراثت کے مسائل بیان ہوئے۔ اس کے بعد معاشرے کی درستگی اور اس کی پاکیزگی کے احکام کا تذکرہ ہوا۔ اور زنا اور لواطت جیسی قبیح بیماری کی مذمت کی گئی اور بدکار عورتوں کو تازیست محبوس رکھنے اور مردوں کو اذیت پہنچانے کا حکم دیا گیا۔ البتہ اگر ایسے لوگ توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیں تو فرمایا کہ پھر انہیں ایذا نہ پہنچائو۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی صفات بیان ہوئیں کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ اب یہاں درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر توبہ کی شرائط کا ذکر آگیا ہے اور اس بات کی وضاحت فرمادی گی ہے کہ زنا اور لواطت جیسے کبیرہ گناہ سے بھی توبہ کرلی جائے ، انسان سچے دل سے نادم ہوجائے تو اس کے لیے بھی قبولیت کا موقع موجود ہوتا ہے۔ معافی مل سکتی ہے مگر بعض شرائط کے ساتھ اس کے بعد پھر وہی معاشرتی احکام آرہے ہیں۔ نکاح اور عورتوں کے حقوق کا تذکرہ آئے گا۔ اور جیسا کہ یہ سلسلہ پیچھے سے چلا آرہا ہے بعض دیگر معاشرتی مسائل بھی بیان ہوں گے۔ گناہ بالجہالت ارشاد ہوتا ہے ان التوبۃ علی اللہ بیشک توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمے ان لوگوں کے لیے ہے للذین یعملون السوء بجھالۃ جو برائی جہالت اور نادانی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ آیت کے ظاہری الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ صرف اسی گناہ کی توبہ قابل قبول ہے جو بےسمجھی کی وجہ سے سرزد ہو ، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو برائی جان بوجھ کر عمداً کی جائے اس کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہر گناہ خواہ وہ عمداً سرزد ہو یا خطاً ہر حالت میں قابل معافی ہے۔ کیونکہ یہاں پر جہالت سے مراد حماقت اور بےوقوفی ہے اور گناہ جب بھی کیا جائے وہ حماقت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور حماقت اس لیے کہ گناہ کرنے والے کی نظر گناہ کے انجام تک نہیں پہنچتی جس کی وجہ سے وہ گناہ کا اقدام کرتا ہے۔ اگر گناہ کا انجام اس کے سامنے ہو تو کبھی گناہ پر اقدام نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس پر غفلت کے پردے پڑے ہوتے ہیں ۔ بہرحال جہالت سے مراد یہ ہے کہ گناہ کرتے وقت انسان کے ذہن وفہم پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ گناہ عمداً ہو یا بھول کر انسان اس کے انجام سے غافل ہوتا ہے اسی لیے فرمایا کہ توبہ ان لوگوں کے لیے ہے جو جہالت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اقدام گناہ کے درجات امام غزالی (رح) اپنی کتاب احیاء العلوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ گناہ پر اقدام کا پہلا درجہ معصومین کا ہے اور یہ گروہ وہ ملائکہ اور انبیاء (علیہم السلام) کا ہے۔ جو گناہ پر اقدام کرتے ہی نہیں۔ انبیاء بڑے اعلیٰ مرتبے کے لوگ ہوتے ہیں ان سے جو معمولی سے معمولی لغزش بھی ہوجاتی ہے وہ اگرچہ عام لوگوں کے لیے گناہ بھی شمار نہیں ہوتا مگر انبیاء کے لیے قابل مواخذہ ہوتی ہے درحقیقت گناہ کا اقدام نہ ملائکہ سے سرزد ہوتا ہے اور نہ انبیاء کرام سے۔ گناہ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی انسان سے گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے بعد اس کے دل میں ندامت بھی پیدا نہ ہو بلکہ وہ اس پر اصرار کرتا رہے۔ یہ شیاطین کا درجہ ہے دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں جو اس روش پر چل رہے ہیں۔ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر کرتے چلے جاتے ہیں ان کے قلب وذہن میں کبھی ندامت پیدا نہیں ہوتی۔ گناہ کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ بنی آدم گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں مگر جلدی ہی اس پر نادم ہوجاتے ہیں اور گناہ کو ترک کردیتے ہیں یہ انسانوں کا درجہ ہے ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ وہ جہالت کی وجہ سے گناہ کرتے ہیں جب ان کی جہالت دور ہوتی ہے ، وہ نادم ہو کر گناہ ترک کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول بھی فرما لیتے ہیں۔ توبہ کا دروازہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے التائب حبیب اللہ یعنی گناہ سے صحیح طور پر توبہ کرنے والا اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا 1 ؎ ابن ماجہ 313 (فیاض) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ اور توبہ کس وقت تک قبول ہوتی ہے فرمایا 1 ؎ ترمذی 005 (فیاض) مالم یغرغر جب تک انسان پر غرغرہ واقع نہ ہوجائے۔ جب اس پر حالت نزع طاری ہوجای ہے ، پردہ اٹھ جاتا ہے اور فرشتے نظر آنے لگتے ہیں اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جب تک انسان کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ انسانوں کی توبہ قبول ہوتی رہے گی۔ حتی کہ قیامت آجائے یعنی پورے عالم پر حالت نزع طاری ہوجائے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مغرب کی جانب ایک بڑا دروازہ ہے جب وہ دروازہ بند ہوگیا تو پھر کسی شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ مسند احمد شریف کی روایت میں یوں آتا ہے کہ انسان کی توبہ اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے مالم یکنک حجاب جب تک کہ حجاب نہ واقع ہوجائے۔ اور حجاب کی تفسیر آپ نے یہ فرمائی کہ انسان کی جان اس حالت میں نکل جائے کہ وہ شرک میں مبتلا ہو۔ ایسے شخص پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حجاب پڑگیا۔ ایسی ہی حالت کے متعلق فرمایا انھم عن ربھم لمحجوبون ان پر ان کے اللہ کی طرف سے حجاب پڑچکا ہے۔ گناہ کے بعد توبہ کرکے انسان بلند مقام حاصل کرلیتا ہے۔ سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کے ساتھ ” التائبون “ یعنی توبہ کرنے والوں کو بھی خوشخبری سنائی ہے۔ سورة نور میں فرمایا ” وتوبو الی اللہ جمعیاً ایہ المومنون لعلکم تفلحون “ اے ایمان والو ! تم سارے کے سارے اللہ سے توبہ کرو تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔ غرضیکہ قرآن میں توبہ کی فضیلت کثرت سے آئی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کا ہر گناہ نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس پر غفلت کا پردہ ہوتا ہے اور وہ گناہ کے انجام سے ناواقف ہوتا ہے۔ آگے فرمایا ثم یتوبون من قریب گناہ کے سرزد ہونے کے بعد جلدی ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ کتنی جلدی ؟ اس کی تفصیل بھی احادیث میں موجود ہے۔ بعض روایات میں موت سے ایک سال پہلے یا ایک مہینہ یا ایک ہفتہ ایک ایک دن یا ایک گھڑی بھر پہلے بھی انسان توبہ کرلے تو وہ قابل قبول ہوتی ہے یہاں تک کہ جب غرغرہ کی حالت طاری ہوجاتی تو توبہ کا درواہ بند ہوجاتا ہے چونکہ انسان کی زندگی بالکل قلیل مدت کے لیے ہے اس لیے مذکورہ تمام حالتوں پر قریب ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ زندگی میں بقائمی ہوش و حواس تائب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ تائب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کا معنی رجوع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ پنے بندے پر مہربانی سے رجوع فرماتا ہے اور بندہ گناہ ترک کرکے خدا کی طرف انابت کے ساتھ رجوع کرتا ہے ” انیبوا الی ربکم واسلموالہ “ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے۔ اپنے رب کی طرف فرمانبرداری ، اطاعت اور انابت کے ساتھ رجوع کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا فائولک یتوب اللہ علیھم اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کے ساتھ رجوع فرماتا اور ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے وکان اللہ علیماً حکیماً اور بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا اور حکمت والا ہے وہ ہر انسان کی ہر بات کو جانتا ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اور وہ انہیں معاف کردینا چاہتا ہے ضرورت صرف ا س بات کی ہے کہ انسان اس کی طرف رجوع کرے۔ توبہ کی عدم قبولیت آگے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کی توبہ قبول نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ولیست التوبۃ اور ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں ہے۔ للذین یعملون السیاتجو برائیاں کرتے رہتے ہیں۔ حتی اذا حضر احدھم الموت یہاں تک کہ جب ان پر موت حاضر ہوجاتی ہے۔ قال انی تبت الن تو کہتے ہیں کہ میں نے اب توبہ کی۔ مگر اس وقت توبہ کی قبولیت کا دروازہ بند ہوچکا ہوتا ہے۔ فرعون نے بھی غرق ہوتے وقت یہی کہا تھا ” قال امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسرائیل “ یعنی میں بھی اسی اللہ پر ایمان لایا جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں وہاں یہ لفظ ہے الئن تو اب ایمان لاتا ہے مگر توبہ کا وقت گزرچکا تھا۔ اللہ نے فرمایا تو بڑا غنڈا تھا۔ مفسد تھا ، زمین میں فساد پھیلارکھا تھا۔ اب تو اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ بہرحال نزع کی حالت سے پہلے پہلے توبہ قبول ہوسکتی ہے اس کے بعد اس کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ توبہ کی تین شرائط مفسرین نے توبہ کی تین شرائط کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی شرط یہ ہے۔ کہ گناہ میں آلودہ ہونے کے بعد انسان ندامت محسوس کرے کہ اس نے یہ برا کام کیا ہے ایک حدیث میں التوبۃ الندم کے الفاظ آتے ہیں یعنی توبہ ندامت ہی کو کہا جاتا ہے۔ جب انسان کسی برے فعل پر شرمندگی محسوس کرے تو توبہ کی پہلی شرط پوری ہوتی ہے اور دوسری شرط یہ ہے کہ جو غلط کام ایک دفعہ یا بارہا کیا جارہا ہے اس کو تک کردے۔ اگر توبہ بھی کرتا ہے اور گناہ پر اصرار بھی جاری رکھے تو ایسی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں جیسا کہ غالب نے کہا ہے مے بھی پئے جاتے ہیں ، توبہ بھی کرتے جاتے ہیں یہ بھی جاری ، وہ بھی جاری ، ایسی توبہ کا کوئی فائدہ نہیں اور توبہ کی تیسری شرط ہے کہ جو غلط کام کیا ہے اس کی تلافی بھی کرے۔ کسی کا حق غصب کیا ہے اس کو ادا کرے یا اس سے معافی چاہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ضائع کیا ہے ، نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ ہی کوتاہی ہوئی ہے اس کو پورا کرے۔ نمازوروزہ کی قضا دے۔ اگر معذور ہوگیا ہے تو اس کے بدلے فدیہ ادا کرے۔ قرآن پاک میں موجود ہے الا الذین تابوا واصلحوا یہاں پر اصلاح کا لفظ تلافی ہی کے معنی میں آیا ہے۔ بہرحال توبہ کی تین شرائط ہیں ۔ پہلی ندامت ، دوسری ترک گناہ اور تیسری تلافی جب ان شرائط کے ساتھ توبہ کی جائے گی تنو اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔ کفار کی توبہ نہیں فرمایا ایک تو نزع کی حالت کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی اور دوسرے ولا الذین یموتون وھم کفار ایسے لوگوں کی توبہ بھی نامقبول ہے جو کفر کی حالت میں ہی مرجائیں۔ ان پر حجاب پڑگیا۔ کفر کی حالت میں ہی خاتمہ ہوگیا۔ وہ ابدی طور پر توبہ سے محروم ہوگئے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا اولئک اعتدنا لھم عذاباً الیماً ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ وہ ہماری گرفت سے بچ نہیں سکتے۔
Top