Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 17
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّٰهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِكَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں التَّوْبَةُ : توبہ قبول کرنا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر (اللہ کے ذمے) لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں السُّوْٓءَ : برائی بِجَهَالَةٍ : نادانی سے ثُمَّ : پھر يَتُوْبُوْنَ : توبہ کرتے ہیں مِنْ قَرِيْبٍ : جلدی سے فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں يَتُوْبُ : توبہ قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ عَلَيْھِمْ : ان کی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھتے ہیں پھر جلد توبہ کرلیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
یہی بات درست ہے اس لیے حدیث کے ابتدائی الفاظ سے ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے آیت میں مذکورسبیل کا بیان تسلیم کرلیاجائے۔ اوریہ بات تو معلوم ہی ہے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد اور حبس واذیت کے مابین کسی اور حکم کا واسطہ نہیں ہے اور یہ کہ سورة نور میں کوڑوں کی سزا کے حکم پر مشتمل آیت اس وقت تک نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اگر اس وقت تک اس کا نزول ہوچکا ہوتا ہے تو آیت زیربحث میں مذکورسبیل کے بیان کے سلسلے میں مذکورہ بالاحدیث پرا سے مقدم تسلیم کرلیاجاتا۔ نیز حضور ﷺ کے اس ارشاد (خذواعنی ، قدجعل اللہ لھن سبیلا، کے کوئی معنی نہ ہوتے۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حبس اور اذیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی وہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبادہ بن الصامت ؓ ہیں اور یہ کہ کوڑوں کے حکم پر مشتمل آیت اس کے بعد نازل ہوئی۔ اس میں سنت کے ذریعے قرآن کے نسخ کے جواز کی دلیل بھی موجود ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نص سے حبس اور اذیت کی جو سزاواجب کردی تھی وہ حضور ﷺ کے مذکورہ بالاقول ہے منسوخ ہوگئی ۔ اگریہ کہاجائے کہ قول باری (واللذانیاتیانھامنکم) نیززیربحث دونوں آیتوں میں مذکورحبس اور اذیت کا تعلق بن بیا ہے جوڑے کے ساتھ تھا بیا ہے جوڑے کے ساتھ نہیں تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ سلف کے درمیان اس بارے میں کوئی اختاف رائے نہیں تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ سلف کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ گھر میں تاموت بندرکھنے کا حکم بیاہی عورت کے لیے تھا۔ صرف سدی کا یہ قول تھا کہ اذیت پہنچانے کی سزابن بیا ہے جوڑے کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضور ﷺ نے آیت حبس میں مذکورہ سبیل کے متعلق جو فرمایا ہے۔ وہ لامحالہ ثیبہ یعنی بیاہی عورت کے بارے میں ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ یہ حکم حضور ﷺ کے ارشاد (الثیب بالثیب الجلد والرجم ) کی پر منسوخ قراردیاجائے۔ اس طرح حبس کی سزاکاحکم بہرصورت غیر قران یعنی احادیث کی بناء منسوخ ہونے سے بچ نہ سکا۔ ان احادیث میں محصن کوسنگسار کردینے کا وجوب ہے۔ ان میں سے ایک حضرت عباد ؓ ہ کی روایت کردہ حدیث ہے جس کا سابقہ سطور میں ذکر کیا ہے اسی طرح حضرت عبداللہ اور حضرت عائشہ کی روایت کردہ حدیثیں ہیں۔ اس سلسلے کی ایک اور حدیث ہے جس کی روایت حضرت عثمان ؓ نے کی ہے۔ جب آپ باغیوں کے گھیرے میں تھے تو آپ نے صحابہ کرام کو اس پر گواہ بنایا کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (لایحل دام امرئی مسلم الاباحدی ثلاث، کفر بعد ایمان ، وزنا بعد احصان وقتل نفس بغیرنفس ، کسی مسلمان کا خون بہانا اس وقت تک حلال نہیں جب تک اس میں ان تین باتوں میں سے ایک بات نہ پائی جائے، مسلمان ہوجانے کے بعد کفر اختیار کرلیاہو صفت احصان کے حصول کے بعد ارتکاب زناکرلیاہو، کسی کی ناحق جان لی ہو۔ ) اسی سلسلے میں ماغر اورغامدی عورت کا واقعہ بھی قابل بیان ہے ۔ حضور ﷺ نے دونوں کوسنگسار کرنے کا حکم دیا تھا امت نے ان آثارو واقعات کو اس کثرت سے نقل کیا ہے کہ اب اس کے متعلق کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اگریہ کہا جائے کہ خوارج کا پوراٹولہ رجم کا انکاری ہے۔ اگر رجم کا حکم کثرت سے مروی ہوکر موجب علم ہوتاتو خوارج کا گروہ اس سے بیخبر نہ رہتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان آثار کے تحت دی گئی خبر کے علم کا ذریعہ ان کسے ناقلین سے سماع اور ان کے ذریعے اس کی معرفت ہے جبکہ خوارج کو فقہاء اسلام اور راویان آثار کی مجالست کی توفیق ہی نہیں ہوئی بلکہ یہ گروہ ان حضرات سے الگ تھلگ رہ کر ان کی روایت کردہ احادیث وآثارکوقبول کرنے سے انکار کرتارہاجس کی بناپررجم کے حکم کے متعلق انہیں شک پیدا ہوگیا اور وہ اس کے اثبات کے قائل نہ ہوسکے۔ اگریہ کہاجائے کہ ان میں سے بہت سوں کو کثرت روایت کی بناپر اس حکم کی معرفت حاصل ہوگئی تھی لیکن صرف اپنے اس عقیدے کا بھرم رکھنے کے لیے کہ جو راوی اپناہم مسلک نہ ہو اس کی روایت مسترد و، اس کا انکارکربیٹھے تھے تو یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہوگی، انہوں نے چونکہ اپنے اعتقاد ومسلک کے دائرے سے باہرآکرآثاروآحادیث کا سماع نہیں کیا اس لیے انہیں اس حکم کا علم نہ ہوسکا۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے جن لوگوں کو اس حکم کا علم تھا ان کی تعداد اتنی تھوڑی تھی کہ ان کے لیے اسے چھپاجانے اور اس سے انکار کردینے کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی۔ ان لوگوں کو چونکہ حضور ﷺ کی مبارک صحبت میسر نہیں ہوئی تھی کہ پھر انہیں اس حکم کا علم چشم دید کے طورپر ہوجاتایا انہیں ان لوگوں سے باربار سننے کا موقعہ ملتا جو اس حکم کے چشم دید گواہ تھے۔ چونکہ انہیں ان میں سے کوئی بات حاصل نہ ہوسکی اس لیے وہ اس حکم کو جان نہ سکے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مویشیوں کی زکواۃ کو نصاب کثرت روایت کے طریقے سے منقول ہوا ہے جو علم کا موجب ہے لیکن اس کے باجود اس کا علم دو میں سے ایک شخص کو ہوتا ہے ایک توفقیہ کو جس نے اسے سنا ہو اور اسے اس کا علم راویوں کے واسطے سے حاصل ہواہو اور دوسرادہ شخص جوان مویشیوں کا مالک ہو اورا سے ان کی زکواۃ نکالنے کے عمل سے باربار سابقہ پڑتا ہو جس کی وجہ سے وہ نصاف زکواہ سے باخبرہوگیا ہوتا کہ اس پر واجب ہونے والی کو اۃ کی وہ درست طریقے سے ادائیگی کرسکے۔ اس جیسے انسان کو جب کثرت سے باربار اس مسئلے کے متعلق سننے کا موقعہ ملتا ہے۔ توا سے اس کا علم حاصل ہوجاتا ہے اور اگر وہ اسے اکادکاطریقے سے سنتا ہے تو اسے اس کا علم حاصل نہیں ہوتا خوارج کی طرف سے رجم کی سزاکوتسلیم نہ کرنے اور ایک عورت کی پھوپھی یاخالہ کے زیرعقد ہوتے ہوئے اس سے نکاح کی حرمت کے قائل نہ ہونے اور اسی قسم کے درسرے مسائل میں جن کے ناقلین عادل رواۃ ہیں، خارجی اور باغی وسرکش قسم کے لوگ نہیں ہیں، ان کے انکار کے رولیے کی یہی وجہ ہے۔ زیربحث دونوں آیتوں میں بہت سے احکام موجود ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ زناکے بارے میں چارگواہوں کی گواہی ہونی چاہیئے۔ زنا کی سزا کے طورپر عورت کو گھر میں بندکردیاجائے اور عورت و مرد دونوں کو ایذادی جائے اگر اس فعل قبیح کے مرتکب مرد اور عورت توبہ کرلیں توا نہیں سخت سست کہنے ذلیل کرنے اور ایذاپہنچانے کا عمل بندکردیاجائے۔ کیونکہ قول باری ہے (فان تاباواحلحافاعرضواعنھما، اگر یہ دونوں توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیں تو ان کاپیچھا چھوڑدو) تاہم یہ تو بہ ایذاپہنچانے کے عمل کے اسقاط میں مؤثر تھی۔ حبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ حبس کا معاملہ آیت میں ذکرہونے والی سبیل کے بیان پر موقوف تھا۔ حضور ﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی کہ یہ کوڑے اور سنگساری کی سزاکانام ہے اور پھر آیت میں مذکورہ تمام احکام منسوخ ہوگئے البتہ چارگواہوں کی گواہی کا حکم باقی رہاکیون کہ زنا کی ان دونوں سزاؤں کو منسوخ کرنے والی سزا یعنی کوڑے اور رجم میں گواہوں کی تعداد کا اعتبارا بھی تک باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتواباربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ، جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور پھر وہ چارگواہ پیش نہیں کرسکتے توا نہیں اسی کوڑے لگاؤ) ۔ نیز فرمایا (لولاجاءؤ اعلیہ یاربعۃ شھداء فاذلم یاتوابالشھداء فاو لئک عنداللہ ھم الاذبون، انہوں نے اس پرچارگواہ کیوں پیش نہیں کیئے۔ اب جب یہ چارگواہ نہ لاسکے تو اللہ کے نزدیک یہ جھوٹے ہیں) اس طرح نہ گواہوں کی تعدادکا اعتبار منسوخ ہو اورنہ ہی گواہی منسوخ ہوئی۔ یہ بات اس فعل قبیح کے مرتکب جوڑے پر حدزناجاری کرنے کی غرض سے گواہوں کو بلاکرا نہیں یہ منظر دکھادینے کے جواز کی موجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس فعل قبیح پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور گواہی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک نظربھرکریہ منظر دیکھ نہ لیا جائے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ زناکارجوڑے پر حدزناجاری کرنے کی غرض سے نظر بھرکردیکھنے والے کی گواہی ساقط نہیں ہوتی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت مغیر ؓ ہ کے واقعہ میں شبل بن معبد، نافع بن الحارث اور زیاد کے ساتھ یہی طرزعمل اپنا یا تھا اور یہ بات ظاہر آیت کے موافق ہے۔
Top