Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 251
وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ۚ وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے مَرَجَ : ملایا الْبَحْرَيْنِ : دو دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ : شیریں فُرَاتٌ : خوشگوار وَّھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ : تلخ بدمزہ وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بَرْزَخًا : ایک پردہ وَّحِجْرًا : اور آڑ مَّحْجُوْرًا : مضبوط آڑ
اور وہ ایسا ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا جن میں یہ میٹھا ہے پیاس بجھانے والا ہے، اور یہ شور ہے کڑوا ہے، ان کے درمیان میں ایک حجاب بنا دیا۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر، میٹھے اور کھارے سمندر میں امتزاج، نطفہ سے انسان کی تخلیق ان دونوں آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بعض مظاہر بیان فرمائے ہیں، جو لوگوں کی نظر کے سامنے ہیں اور ان چیزوں کو لوگ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں، ان میں سے ایک تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو سمندروں کو اس طرح ملا دیا کہ دونوں ساتھ چلتے ہیں ان میں سے ایک میٹھا ہے جس سے خوب اچھی طرح پیاس بجھتی ہے اور ایک خوب زیادہ شور ہے کڑوا ہے، ان دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ایک آڑ بنا دی ہے اور رکاوٹ لگا دی ہے جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے میں گھلتے ملتے نہیں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ظاہری کوئی آڑ نہیں ہے، بس اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی نے ان کو اس طرح جاری کر رکھا ہے کہ میٹھے دریا کا پانی شور دریا کے پانی میں نہیں ملتا اور شور دریا کا پانی میٹھے دریا میں نہیں ملتا، سورة الرحمن میں فرمایا ہے (مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْغِیَانِ ) (اس نے دو دریاؤں کو اس طرح ملادیا کہ وہ باہم ملے ہوئے ہیں، ان دونوں کے درمیان ایک حجاب ہے وہ دونوں اپنی مقررہ بہنے کی جگہ سے تجاوز نہیں کرتے) بظاہر دیکھنے میں کوئی آڑ نہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک دوسرے میں ملتا بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان دونوں کو اس حال میں رکھا ہے کہ ایک دوسرے میں نہیں ملتے یہی قدرتی آڑ ہے اور ظاہری کوئی آڑ نہیں ہے۔ جس نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اسے پورا اختیار ہے کہ جس مخلوق کو جس طرح چاہے رکھے جو طبیعتیں ہیں وہ بھی اسی کی بنائی ہوئی ہیں، عموماً مخلوقات اپنی طبیعت کے مطابق چلتی رہتی ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو طبیعت کے خلاف بھی ظہور ہوجاتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ نے نہیں جلایا، پانی کا مزاج یہ ہے کہ ایک پانی دوسرے پانی میں گھل مل جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے دو سمندر ساتھ ساتھ جاتے ہیں دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے میں نہیں گھستا، حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ؓ تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں۔ بیان القرآن میں دو معتبر بنگالی علماء کی شہادت نقل کی ہے کہ ارکان سے چاٹگام تک دریا کی شان یہ ہے کہ اس کی دو جانب بالکل الگ الگ نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں، ایک کا پانی سفید ہے، ایک کا سیاہ، سیاہ میں سمندر کی طرح طوفانی تلاطم اور تموج ہوتا ہے اور سفید بالکل ساکن رہتا ہے کشتی سفید پانی میں چلتی ہے اور دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے جو دونوں کا ملتقی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ سفید پانی میٹھا ہے اور سیاہ کڑوا، اھ۔ اور مجھ سے باریسال کے بعض طلبہ نے بیان کیا کہ ضلع بار یسال میں دو ندیاں ہیں جو ایک ہی دریا سے نکلی ہیں۔ ایک کا پانی کھارا بالکل کڑوا اور ایک کا نہایت شیریں اور لذیذ ہے۔ یہاں گجرات میں راقم الحروف جس جگہ آج کل مقیم ہے (ڈالک بھیل سملک سورت) سمندر تقریباً دس بارہ میل کے فاصلہ پر ہے ادھر کی ندیوں میں برابر مدو جزر (جوار بھاٹا) ہوتا رہتا ہے بکثرت ثقات نے بیان کیا کہ مد کے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتا ہے تو میٹھے پانی کی سطح پر کھاری پانی بہت زور سے چڑھ جاتا ہے لیکن اس وقت بھی دونوں پانی مختلط نہیں ہوتے۔ اوپر پانی کھاری رہتا ہے، نیچے پانی میٹھا، جزر کے وقت اوپر سے کھاری اتر جاتا ہے اور میٹھا جوں کا توں باقی رہتا ہے۔ واللہ اعلم۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے آیت کا مطلب بالکل واضح ہے یعنی خدا کی قدرت دیکھو کہ کھاری اور میٹھے دونوں دریاؤں کے پانی کہیں نہ کہیں مل جانے کے باو جود بھی کس طرح ایک دوسرے سے ممتاز رہتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں دریا الگ الگ اپنے اپنے مجری میں چلائے اور دونوں کے بیچ میں بہت جگہ زمین حائل کردی، اس طرح آزادانہ چھوڑا کہ دونوں زور لگا کر درمیان سے زمین کو ہٹا دیتے اور اس کی ہستی کو تباہ کردیتے، پھر دونوں میں ہر ایک کا جو مزہ ہے وہ اسی کے لیے لازم ہے۔ یہ نہیں کہ میٹھا دریا کھاری، یا کھاری میٹھا بن جائے، گویا باعتبار اوصاف کے ہر ایک دوسرے سے بالکل الگ رہنا چاہتا ہے۔ وقیل غیر ذلک، والراجح عندی ھو الاول، واللہ اعلم۔
Top