Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 270
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
وَمَآ : اور جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو گے مِّنْ : سے نَّفَقَةٍ : کوئی خیرات اَوْ : یا نَذَرْتُمْ : تم نذر مانو مِّنْ نَّذْرٍ : کوئی نذر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُهٗ : اسے جانتا ہے وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ اَنْصَارٍ : کوئی مددگار
اور تم جو بھی خرچ کرو، کوئی خرچ، یا نذر مانو، کوئی نذر تو بیشک اللہ اسے جانتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔
وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ۔۔ : نذر کا معنی ہے، اپنے آپ پر وہ چیز فرض کرلینا جو فرض نہیں تھی، مثلاً کوئی نفل نماز یا نفل روزہ یا صدقہ یا نفل حج وغیرہ۔ اس کی دو قسمیں ہیں : ایک نذر مطلق اور دوسری نذر معلق۔ نذر مطلق یہ ہے کہ کوئی شرط لگائے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ پر کوئی نیکی لازم کرلے، مثلاً یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے ہمیشہ یا اتنے دن تہجد پڑھوں گا، یا عمرہ کروں گا۔ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ نذر معلق یہ ہے کہ کسی شرط کے ساتھ نذر مانے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں نیکی کروں گا، مثلاً صدقہ یا نوافل وغیرہ۔ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ آدمی کی شرط سے مستغنی ہے، وہ اس کی وجہ سے اس کی مراد بر نہیں لائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”نذر نہ مانا کرو، اس لیے کہ نذر تقدیر میں طے شدہ کاموں میں کچھ فائدہ نہیں دیتی، صرف اتنا ہوتا ہے کہ بخیل سے مال نکل آتا ہے۔“ [ مسلم، النذر، باب النھی عن النذر۔۔ : 1640، عن أبی ہریرۃ ؓ ] البتہ اگر وہ کام ہوجائے تو نذر پوری کرنا پڑے گی۔ گناہ کے کام کی نذر پوری کرنا جائز نہیں۔ اگر نذر پوری نہ کرسکے تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا جو وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (دیکھیے سورة مائدہ (89)۔ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے۔ اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریا کار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہو سکے گی۔
Top