Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 273
یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا
يٰوَيْلَتٰى : ہائے میری شامت لَيْتَنِيْ : کاش میں لَمْ اَتَّخِذْ : نہ بناتا فُلَانًا : فلاں کو خَلِيْلًا : دوست
ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا
28۔ 29:۔ تفسیر ابو عمر عامر بن شراحیل شعبی اور تفسیر ابو جعفر ابن جریر طبری اور دلائل ابو نعیم میں صحیح سند کی حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت 2 ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ میں عقبہ بن ابی معیط ایک شخص تھا اس کی عادت تھی کہ جب کبھی سفر سے آتا تھا تو بہت سے لوگوں کی دعوت کرتا تھا ‘ ایک دفعہ اس نے آنحضرت ﷺ کی بھی دعوت کی آپ نے فرمایا اگر تو اسلام لے آوے گا تو میں تیرا کھانا کھالوں گا اس نے کلمہ پڑھ لیا اور آپ نے اس کا کھانا کھالیا ‘ اس کے بعد اس کے دوست نے جس کا نام ابی بن خلف تھا ‘ عقبہ کو بہکایا اور عقبہ اسلام سے پھر گیا ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ‘ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اب تو دنیا میں لوگ اپنے دوستوں کی خاطر دین کی بات کا خیال نہیں رکھتے مگر عاقبت میں ایسی دوستی سے پچتاویں گے ‘ پھر اس وقت کے پچھتانے سے کیا ہوتا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی 3 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے برے دوست کی مثال لوہار کی کھال دھونکنے والے شخص کی بیان فرمائی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح کھال کے دھونکنے والے شخص کے پاس بیٹھنے سے آگ کی چنگاری اڑ کر کپڑوں پر پڑجانے اور کپڑوں کے جل جانے کا خوف ہے ‘ اسی طرح برے دوست کی دوستی سے آدمی کو کبھی نہ کبھی نقصان ضرور پہنچ جاتا ہے ‘ آیت کی شان نزول کی روایت اور اس روایت کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ابی بن خلف کی دوستی سے جس طرح عقبہ بن ابی معیط کو نقصان پہنچا جس کو یاد کر کے قیامت کے دن عقبہ اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھاوے گا ‘ اسی طرح ہر ایک برے دوست کی دوستی کا انجام ہے آخر کو فرمایا ‘ شیطان بڑا دغا باز ہے برے دوستوں کی دوستی کے پھندے میں پھنسا کر انسان کو بہکاتا ہے اس لیے ہر ایماندار شخص کو چاہیے کہ وہ برے دوست کی دوستی کو شیطان کی دغا بازی کا پھندا سمجھ کر اس پھندے سے ہمیشہ بچتا رہے۔ (2 ؎ تفسیر ابن جریر ص 9 ج 19 و تفسیر الدر المنثور ص 68۔ 69 ج 5 ) (3 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب الحب فی اللہ والبغض فی اللہ )
Top