Tafseer-e-Usmani - Al-Furqaan : 42
اِنْ كَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا لَوْ لَاۤ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْهَا١ؕ وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا
اِنْ : قریب تھا كَادَ لَيُضِلُّنَا : کہ وہ ہمیں بہکا دیتا عَنْ اٰلِهَتِنَا : ہمارے معبودوں سے لَوْلَآ : اگر نہ اَنْ صَبَرْنَا : ہم جمے رہتے عَلَيْهَا : اس پر وَسَوْفَ : اور جلد يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے حِيْنَ : جس وقت يَرَوْنَ : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب مَنْ اَضَلُّ : کون بدترین گمراہ سَبِيْلًا : راستہ سے
یہ تو ہم کو بچلا ہی دیتا ہمارے معبودوں سے اگر ہم نہ جمے رہتے ان پر4 اور آگے جان لیں گے جس وقت دیکھیں گے عذاب کہ کون بہت بچلا ہوا ہے راہ سے5
4 یعنی بجائے عبرت حاصل کرنے کے ان کا مشغلہ تو یہ ہے کہ پیغمبر سے ٹھٹھا کیا کریں۔ چناچہ آپ ﷺ کو دیکھ کر استہزاءاً کہتے ہیں کہ کیا یہ بزرگ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ؟ بھلا یہ حیثیت اور منصب رسالت ؟ کیا ساری خدائی میں سے یہ ہی اکیلے رسول بننے کے لیے رہ گئے تھے ؟ آخر کوئی بات تو ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے۔ قوت فصاحت اور زور تقریر سے رنگ تو ایسا جمایا تھا کہ بڑے بڑوں کے قدم پھسل گئے ہوتے۔ قریب تھا کہ اس کی باتیں ہم کو ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دیتیں۔ وہ تو ہم پکے ہی ایسے تھے کہ برابر جمے رہے ان کی کسی بات کا اثر قبول نہ کیا۔ ورنہ یہ ہم سب کو کبھی کا گمراہ کر کے چھوڑتے (العیاذ باللہ) 5 یعنی عذاب الٰہی کو آنکھوں سے دیکھیں گے تب ان کو پتہ لگے گا کہ واقع میں کون گمراہی پر تھا۔
Top