Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 57
قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖ١ؕ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَكَذَّبْتُمْ : اور تم جھٹلاتے ہو بِهٖ : اس کو مَا عِنْدِيْ : نہیں میرے پاس مَا : جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کر رہے ہو بِهٖ : اس کی اِنِ : صرف الْحُكْمُ : حکم اِلَّا : مگر (صرف) لِلّٰهِ : اللہ کیلئے يَقُصُّ : بیان کرتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر الْفٰصِلِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
تم کہو بلاشبہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلایا ہے تم جس کے لیے جلدی مچا رہے ہو وہ کچھ میرے اختیار میں تو ہے نہیں حکم تو بس اللہ ہی کے لیے ہے ، وہی حق کی باتیں بیان کرتا ہے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
جس بات سے تم کو منع کر رہا ہوں اس سے منع کرنے کیلئے میرے پاس ” دلیل “ موجود ہے : 87: ” بَیِّنَةٍ “ وہ دلیل جو ہر لحاظ سے واضح اور کھلی ہوئی کوئی اس کو کتنا ہی چھپا نا چاہے لیکن نہ چھپا سکے اور وہ دلیل جو بہت سے دلائل سے مضبوط کردی گئی گو فرمایا ” اے میرے رسول ﷺ آپ ﷺ کہہ دیں یعنی اعلان کردیں کہ جس بات سے میں نے تم کو روکا ہے اس سے روکنے کے لئے میرے پاس پختہ دلیل موجود ہے جو بہت سے دلائل سے مضبوط کردی گئی ہے اور وہ دلائل عقلی بھی ہیں نقلی بھی۔ یعنی محسوس ہونے والے۔ توحید کے ان دلائل سے قرآن کریم بھی بھرا پڑا ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ بھی اس ” توحید الٰہی “ کا شاہد عادل ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو اس جگہ ” بَیِّنَةٍ “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اے انسان ! تو اپنی ذات پر غور کر اور دیکھ کہ تو سارے کا سارا ” توحید الٰہی “ کے لئے ایک ” مکمل دلیل “ موجود ہے۔ بشرطیکہ تو غور کرے۔ ذرا اپنی تخلیق کو اپنے ذہن و دماغ میں لے آ اگر نہیں تو آخر جب تو پیدا ہوا کیا بچہ نہ تھا ؟ تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لو تھڑا تھا۔ زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا تھا سب کی سب کی پرورش و تربیت کی محتاج تھیں۔ یہ پرورش محبت و شفقت ، حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طول وطویل سلسلہ تھا۔ کیا سب کچھ اس وقت تک جاری وساری رہا جب تک تو بچہ تھا یہ سلسلہ کس نے جاری رکھا ؟ پھر تو ہی وہ بچہ ہے کہ جب اپنے جسم و ذہن کے حد بلاغ کو پہنچ گیا تو تیری ضرورتیں بدل گئیں لیکن ختم نہیں ہوئیں اور پھر وہ ایک دو بھی نہیں بیشمار تھیں کیا وہ سب کی سب پوری ہوئیں اور ہو رہی ہیں خود غور کر کے بتا کہ ان سب ضرورتوں کو کون پورا کر رہا ہے ؟ بس وہی جو تیرا اور اس ساری کائنات کا رب ہے۔ وہی ہے جو سب کا رب ہے۔ وہی ہے بیماروں کو صحت دینے والا۔ وہی ہے بےروز گاروں کو روز گار دینے والا۔ وہی ہے جو حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے والا ہے ، جو نذر و نیاز کے لائق ہے۔ وہی ہے جو مضطر و پریشان حال لوگوں کی دعائیں سننے والا ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو یہ سارے کام یا ان سارے کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی سر انجام دے سکے۔ اے گروہ جن وانس ! ذرا بتاؤ جن کو تم حاجت روا اور مشکل کشا بنا رہے ہو کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے یا بےروز گاروں کو روز گار دلوانے یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیئے ہیں یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی فلاں فلاں زمین کا مختار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہئیں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہئیں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پر انہی (چھوٹے خداؤں) کا شکر بھی بجا لانا چاہئے۔ ایسی اگر کوئی سند تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو اور نہیں تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کئے ہیں۔ تم نے ” دلیل “ کو جھٹلایا ہے اور جس چیز کے لئے جلدی کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں : 88: اس جگہ دلیل سے مراد وہی ” توحید الٰہی “ ہے جو سر اسر یقین اور حقیقت ہے اور تم ہو کہ اس یقین و حقیقت کو جھٹلائے چلے جا رہے ہو رہی یہ بات کہ تم اس کو کیوں جھٹلاتے ہو ؟ اس بات کو ہم نے پہلے کئی دفعہ بیان کردیا ہے کہ تمہارے جھٹلانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ عذاب جس کی خبر میں نے تم کو دی تم اس کے طلب گار ہو حالانکہ تم اس کے لئے بہت جلدی مچا رہے ہو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ جب وہ وقت آجائے گا تو تم کو مزید مہلت نہیں ملے گی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میں نے اسکی خبر تم تک ضرور پہنچائی ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ وہ تم پر کب آنے والا ہے کیونکہ ” وہ کچھ میرے اختیار میں تو ہے نہیں ، حکم تو بس اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہی حق کی باتیں کرتا ہے اور وہی ہے جو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ “ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ نبی اعظم و آخر ﷺ انہیں ڈرایا کرتے تھے کہ اگر تم نے شرک نہ چھوڑا تو تم عذاب الٰہی کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور وہ تمہیں نیست ونابود کر دے گا۔ وہ بطور مذاق کہتے کہ صاحب ! ہم نے تمہارا دین تو قبول نہیں کیا پھر اتار لایئے وہ عذاب جس کی تم بار بار دھمکی دیتے ہو ، جلدی کیجئے دیر کیوں لگا رہے ہو ؟ بلکہ وہ تو یہ دعا بھی مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اگر یہ دین سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ہرزہ سرائی کے رد میں رحمت للعالمین ﷺ کو یہ جواب عنایت فرمایا کہ اے گروہ کفار ! جس عذاب کے لئے تم جلد بازی کر رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہے ، میرے اختیار میں نہیں ، وہ جب چاہے گا اتارے دے گا اور جب وہ اتاردے گا تو اس وقت اس کے غضب سے تمہیں کوئی بھی بچا نہیں سکے گا۔ (کبیر)
Top