Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 37
عُرُبًا اَتْرَابًاۙ
عُرُبًا : خاوندوں کی پیاریاں اَتْرَابًا : ہم عمر
جو ہم عمر بھی ہوں گی اور پیار کرنے والیاں بھی
جو ہم عمر بھی ہوں گی اور پیار کرنے والیاں بھی 37۔ { عربا } سہاگ والیاں ‘ پیار دلانے والیاں ‘ محبوبائیں۔ عروب کی جمع جو بروزن فول صفت مشبہ کا صیغہ ہے جس کے معنی اس عورت کے ہیں جو اپنے ناز و انداز کی وجہ سے اپنے شوہر کی محبوب ہو نیز اپنی فراست کی بنا پر اس کی مزاج شناس بھی ہو۔ عرب کا مادہ چونکہ اظہار کو بتاتا اسی بنا پر امام راغ اصفہانی نے مفرادت میں اس کے معنی یہ لکھے ہیں امراۃ عروب وہ عورت کہ جو زبان حال سے اپنی عفت اور اپنے شوہر کی محبت کا اظہار کرے۔ عرب عرب اس کی جمع ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری (رح) نے اپنی صحیح میں عربا کی تفسیر میں لکھا ہے کہ المجبات الی ازواجھنَّ جو اپنے شوہروں کو محبوب ہوں۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں عرب بالضم ہے اور اس کا واحد عروب جیسے کہ صبور اور صبر ہیں عروبکو اہل مکہ عربۃ کہتے ہیں۔ (بخاری تفسیر سورة الواقعہ) ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم نے روایت کیا ہے کہ اس کے معنی شیریں کلام کے ہیں اور بطریق جعفر بن محمد عن ابیہ عن جدہ مرفوعاً خود پیغمبر اسلام ﷺ سے یہ نقل کیا ہے کہ عرب کے معنی ان عورتوں کے ہیں جن کی زبان عربی ہو لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت ضعیف اور منقطع ہے اور طبریٰ نے تمیم بن حزام سے عربۃ کے معنی ایسی عورت کے نقل کیے ہیں کہ جو شوہر کی اطاعت گزار اور فرمانبردار ہو اور عبداللہ بن عبیدبن عمیر مکی سے یہ نقل ہے کہعربۃ وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کی چاہنی والی ہو (فتح الباری ج 6 ص 628) اور ابن عباس ؓ نے اس کی تفسیران الفاظ میں فرمائی ہے العرب العواشق لا زواجھن وزاوجھن لھن عاشقون ” یعنی عرب کے معنی وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کی عاشق ہوں اور ان کے شوہر ان کے عاشق ہوں۔ حافظ ابن کثیرخ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کی مذکورہ بالا تفسیر کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ بن سرجس ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ ابوالعالیہ ‘ یحییٰ بن ابی کثیر ‘ عطیہ ‘ حسن بصیر ‘ قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 292 طبع مصر 1367 ھ؁) { اترباً } ہم سن عورتیں یعنی ہم عمر ترب کی جمع ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ عربوں میں عورتوں کے بڑے ہونے یا مرد کے معمر ہونے کا لحاظ بہت کم تھا تا ہم ہم عمری کو وہ بھی ایک خوبی کی بات سمجھتے تھے اور آپ ﷺ نے جو نکاح کیے ان میں اکثر عورتیں آپ ﷺ سے عمر میں بڑی تھیں خصوصاً پہلی شادیوں میں لیکن آپ ﷺ کی شادیاں محض خواہش نفس کے لیے نہ تھیں بلکہ خاص مصلحت کے تحت تھیں اور یہی بات سیدہ عائشہ ؓ کے نکاح میں تھیں اگرچہ صرف یہی آپ ﷺ کی شادی تھی جو ایک کنواری کے ساتھ ہوئی اور آپ ﷺ کی عمر سے سیدہ عائشہ ؓ عمر میں کافی چھوٹی بھی تھیں تاہم نکاح کے وقت سیدہ عائشہ ؓ کی عمر تقریباً اٹھارہ سال کے قریب تھی گویا آپ ﷺ کا یہ نکاح بھی سیدہ عائشہ ؓ کی بلوغت کے بعد کا ہے نہ کہ بلوغت سے پہلے کا جیسا کہ عام طور پر سیرۃ نگاروں نے تحریر کیا ہے۔ تفصیل اس کی عروۃ الوثقی میں پیچھے گزر چکی ہے۔
Top