Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں 64 تاکہ وہ کچھ سبق لیں، مگر اکثر لوگ کُفر اور ناشکری کے سوا کوئی دُوسرا رویّہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ 65
سورة الْفُرْقَان 64 اصل الفاظ ہیں لَقَدْ صَرَّفْنَاہُ۔ اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ بارش کے اس مضمون کو ہم نے بار بار قرآن میں بیان کر کے حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم بار بار گرمی و خشکی کے، موسمی ہواؤں اور گھٹاؤں کے، اور برسات اور اس سے رونما ہونے والی رونق حیات کے کرشمے ان کو دکھاتے رہتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ ہم بارش کو گردش دیتے رہتے ہیں۔ یعنی ہمیشہ ہر جگہ یکساں بارش نہیں ہوتی بلکہ کبھی کہیں بالکل خشک سالی ہوتی ہے، کبھی کہیں کم بارش ہوتی ہے، کبھی کہیں مناسب بارش ہوتی ہے، کبھی کہیں طوفان اور سیلاب کی نوبت آجاتی ہے، اور ان سب حالتوں کے بیشمار مختلف نتائج ان کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ سورة الْفُرْقَان 65 اگر پہلے رخ (یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کمینگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے۔ نہ حق و صداقت کو مان کردیتے ہیں، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسرے رخ (یعنی آخرت کی دلیل کے نقطہ نظر) سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال ان کے سامنے گرمی و خشکی سے بیشمار مخلوقات پر موت طاری ہونے اور پھر برسات کی برکت سے مردہ نباتات و حشرات کے جی اٹھنے کا ڈراما ہوتا رہتا ہے، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی یہ بیوقوف اس زندگی بعد موت کو ناممکن ہی کہتے چلے جاتے ہیں۔ بار بار انہیں اس صریح نشان حقیقت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، مگر کفر و انکار کا جمود ہے کہ کسی طرح نہیں ٹوٹتا، نعمت عقل و بینائی کا کفران ہے کہ کسی طرح ختم نہیں ہوتا، اور احسان تذکیر وتعلیم کی ناشکری ہے کہ برابر ہوئے چلی جاتی ہے۔ اگر تیسرے رخ (یعنی خشک سالی سے جاہلیت کی اور باران رحمت سے وحی و نبوت کی تشبیہ) کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دوران میں بار بار یہ منظر سامنے آتا رہا ہے کہ جب کبھی دنیا نبی اور کتاب الہٰی کے فیض سے محروم ہوئی انسانیت بنجر ہوگئی اور فکر و اخلاق کی زمین میں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگا۔ اور جب کبھی وحی و رسالت کا آب حیات اس سر زمین کو بہم پہنچ گیا، گلشن انسانیت لہلہا اٹھا۔ جہالت و جاہلیت کی جگہ علم نے لی۔ ظلم و طغیان کی جگہ انصاف قائم ہوا۔ فسق و فجور کی جگہ اخلاقی فضائل کے پھول کھلے۔ جس گوشے میں جتنا بھی اس کا فیض پہنچا، شر کم ہوا اور خیر میں اضافہ ہوا۔ انبیاء کی آمد ہمیشہ ایک خوشگوار اور فائدہ بخش فکری و اخلاقی انقلاب ہی کی موجب ہوئی ہے، کبھی اس سے برے نتائج رو نما نہیں ہوئے۔ اور انبیاء کی ہدایت سے محروم یا منحرف ہو کر ہمیشہ انسانیت نے نقصان ہی اٹھایا ہے، کبھی اس سے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ یہ منظر تاریخ بھی بار بار دکھاتی ہے اور قرآن بھی اس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے، مگر لوگ پھر بھی سبق نہیں لیتے۔ ایک مجرب حقیقت ہے جس کی صداقت پر ہزارہا برس کے انسانی تجربے کی مہر ثبت ہوچکی ہے، مگر اس کا انکار کیا جا رہا ہے۔ اور آج خدا نے نبی اور کتاب کی نعمت سے جس بستی کو نوازا ہے وہ اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے الٹی ناشکری کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
Top