Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 49
لِّنُحْیَِۧ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا
لِّنُحْيِۦ بِهٖ : تاکہ ہم زندہ کردیں اس سے بَلْدَةً مَّيْتًا : شہر مردہ وَّنُسْقِيَهٗ : اور ہم پلائیں اسے مِمَّا : اس سے جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اَنْعَامًا : چوپائے وَّاَنَاسِيَّ : اور آدمی كَثِيْرًا : بہت سے
تاکہ ایک مُردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔ 63
سورة الْفُرْقَان 63 اس آیت کے بھی وہی تین رخ ہیں جو اوپر والی آیت کے تھے۔ اس میں توحید کے دلائل بھی ہیں اور آخرت کے دلائل بھی۔ اور ان دونوں مضمونوں کے ساتھ اس میں یہ لطیف مضمون بھی پوشیدہ ہے کہ جاہلیت کا دور حقیقت میں خشک سالی اور قحط کا دور تھا جس میں انسانیت کی زمین بنجر ہو کر رہ گئی تھی۔ اب یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ نبوت کا ابر رحمت لے آیا جو علم وحی کا خالص آب حیات برسا رہا ہے، سب نہیں تو بہت سے بندگان خدا تو اس سے فیض یاب ہوں گے ہی۔
Top