Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور ہم نے اس کو ان کے درمیان گوناگوں اسلوبوں سے واضح کردیا ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں لیکن اکثر لوگ ناشکری ہی پر اڑے ہوئے ہیں
آیت (52-50) آنحضرت ﷺ طرف ایک التفات یہاں قرینہ دلیل ہے کہ ضمیر مفعول کا مرجع قرآن ہے جس کی تائید و تصویب ہی کے لئے اوپر کے دلائل بیان ہوئے ہیں۔ یہ نشانیوں کے ذکر کے بیچ میں نبی ﷺ کی طرف التفات ہے کہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے ان کی وضاحت کے لئے ہم نے اس قرآن کو لوگوں کے درمیان گوناگون اسلوبوں سے سنا دیا ہے کہ لیکن ان کی اکثریت اس نعمت کی قدر کرنے کی بجائے ناشکری اور انکار ہی پر اڑی ہوئی ہے تو اب نہ قصور تمہاری سعی کا ہے اور نہ ہمارے اہتمام تذکیر وتعلیم کا بلکہ سارا قصور ان لوگوں کا اپنا ہے۔ قرآن کے دلائل کے گوناگوں پہلو تصریف کے مفہوم کی وضاحت دوسرے مقام میں ہوچکی ہے کہ قرآن نے ہر حقیقت کو اتنے گوناگوں پہلوئوں سے واضح کردیا ہے کہ صرف ضدی اور ہٹ دھرم ہی ان کو جھٹلا سکتا ہے۔ بینھم کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ مخاطب قوم کے ہر طبقہ اور ہر گروہ پر حجت تمام کردی گئی ہے۔ یہ نہیں ہوا ہے کہ تبلیغ وتعلیم کی یہ جدوجہد کسی خاص گروہ ہی کے اندر محدود رہی ہو۔ ولو شیناء لبعثنا فی کل قریۃ نذیراً یعنی اگر ہم دیکھتے کہ تمہارے اکیلے ہونے کے باعث دعوت و تبلیغ کے کام میں کوئی کسر رہی جا رہی ہے تو ہم ہر بستی میں ایک ایک منذر بھیج دیتے۔ ہمارے لئے یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں تھا۔ لیکن کمی تمہاری طرف سے نہیں ہے بلکہ ساری خرابی خود ان لوگوں کے اندر ہے جو اپنے کان بند اور اپنی عیم معطل کئے ہوئے ہیں۔ فلا تطع الکفرین وجاھدھم بہ جھاد کبیر تو یہ لوگ نتے نئے مطالبات تمہارے سامنے محض تمہیں زچ کرنے کے لئے جو پیش کر رہے ہیں ان کی کوئی پروا نہ کرو۔ بلکہ اسی قرآن کے ہتھیار سے اس جہاد میں برابر لگے رہو۔ جہاد کبیراً میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چند ہے تو یہ جہاد نہایت کٹھن اگر ان لوگوں کی طلب کے مطابق کوئی عذاب ان پر بھیج دیا جائے تو چشم زدن میں سارے قضیہ کا فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن حکمت الٰہی یہی ہے کہ عذاب الٰہی کے بجائے اس کتاب ہی کے اندر ادنیٰ رمق بھی حق کو قبول کرنے کی ہے وہ اگر چاہے تو حق کو قبول کرلے اور کسی کے لئے بھی عند اللہ کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ لفظہ اطاعۃ یہاں کسی کی بات ماننے اور اس کا لحاظ کرنے کے مفہوم میں ہے۔ دوسرے مقام میں اس کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔
Top