Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
298جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں 299، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔300
سورة الْبَقَرَة 298 ”اب پھر سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے، جو رکوع 32 میں چھیڑا گیا تھا۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصد عظیم پر تم ایمان لائے ہو، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اس کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہوجائے، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بےدریغ صرف کرنے لگے۔ مادہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے کے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کرسکیں۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ اس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیوی فائدے اور نقصان سے بےپروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں۔ اس کے لیے نظر کی وسعت، حوصلے کی فراخی، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں۔ چناچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ سورة الْبَقَرَة 299 مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں، یا اپنے اعزہ و اقربا کی خبر گیری میں، یا محتاجوں کی اعانت میں، یا رفاہ عام کے کاموں میں، یا اشاعت دین اور جہاد کے مقاصد میں، بہرحال اگر وہ قانون الہٰی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہوگا۔ سورة الْبَقَرَة 300 یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے، بیخبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے۔
Top