Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور اعلان کر دو کہ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔“101
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 101 یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبشہ میں پناہ گزین تھی، اور باقی مسلمان سخت بیکسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی ﷺ کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ﷺ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اڑا دیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی ﷺ اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ ﷺ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ﷺ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ " جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق ومایبدء الباطل ومایعید "۔
Top