Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور آپ ﷺ اعلان کردیجیے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تھا ہی مٹنے والا۔
وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زُھُوْقًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 81) (اور آپ ﷺ اعلان کردیجیے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تھا ہی مٹنے والا۔ ) حق کی فتح اور باطل کی شکست کا اعلان سابقہ آیت کریمہ میں غلبہ دین کی جو بات اشاروں میں کہی جارہی تھی، اب آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ ﷺ کھل کر اعلان کردیجیے کہ اسلام کا راستہ روکنے والو ! سن لو، تم اب اس شمع کو جلنے سے نہیں روک سکو گے۔ مشعل برداروں کا قافلہ دنیا کی تاریکیاں دور کرنے کے لیے نکلا ہے، تم ان سے مشعلیں نہیں چھین سکو گے۔ مستقبل اگرچہ ابھی تک تاریک پردوں میں ہے، اس لیے تم اسے دیکھ نہیں سکتے، لیکن جس نے یہ قرآن اتارا ہے اور مجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس کے سامنے کوئی چیز مخفی نہیں، وہ مجھے یہ اعلان کرنے کا حکم دے رہا ہے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا یعنی وہ وقت بہت قریب ہے جب حق پوری طرح جلوہ گر ہوگا۔ حق سے مراد وہ دین حق ہے جس کو لے کر قرآن آیا تھا اور باطل سے مراد وہ دین باطل ہے جس کو مٹانے کے لیے قرآن نازل ہوا تھا۔ چناچہ اس اعلان کو 9 سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ نبی کریم ﷺ حق کا پھریرا لہراتے ہوئے مکہ معظمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ اور آپ ﷺ جب اللہ تعالیٰ کے گھر میں داخل ہوئے جسے مشرکین نے بت خانہ بنا رکھا تھا۔ تو آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا جس کی انی سے آپ ﷺ بتوں کو توڑتے جاتے تھے اور زبان پر یہ آیت جاری تھی۔ لوگوں نے چند ہی سالوں بعد اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ جس غلبہ حق کا اعلان کیا گیا تھا، وہ آج ان کے سامنے پورا ہورہا ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ باطل کا مٹ جانا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ باطل خودرو جھاڑیوں کی طرح ہے۔ جس زمین کا کوئی وارث نہ ہو اور جس باغ کا کوئی مالی نہ ہو، جو اس کی نگہبانی کا فرض انجام دے، وہاں خودرو پودے، جڑی بوٹیاں اور جھاڑیاں پھیل جاتی ہیں۔ اور یہ اس وقت تک پھیلتی جاتی ہیں جب تک کوئی کسان یا کوئی باغبان اپنا فرض انجام دینے کے لیے نہیں اٹھتا۔ لیکن جب کوئی بھی شخص اپنا فرض انجام دینے کے لیے کسّی یا درانتی لے کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پھر جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں کو تلف ہوتے دیر نہیں لگتی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پھول کھلنے اور فصلیں لہلہانے لگتی ہیں۔ یہی حال حق و باطل کا ہے۔ انسانی فطرت میں باطل کے لیے قدرت نے کوئی گنجائش نہیں رکھی، لیکن جب اہل حق اپنا فرض انجام نہیں دیتے اور وہ فطرت کی زمین میں حق کی تخم ریزی نہیں کرتے اور اسے بیکار چھوڑ دیتے ہیں تو پھر جگہ جگہ باطل کی جڑی بوٹیاں اور جھاڑیاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ اور خاروخس اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ جو خلیفۃ اللہ تھے تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے کشت حق کی تخم ریزی اور اس کی نگرانی کا فرض انجام دینا شروع کردیا اور آپ ﷺ کے ساتھ صاحب ایمان لوگوں کا قافلہ بڑھتا چلا گیا تو چند ہی سالوں میں زمین کی قسمت بدل گئی۔ رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا اِدھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا آج بھی یہ آیت کریمہ امت مسلمہ کے دعوت و ارشاد سے تعلق رکھنے والے دردمند لوگوں کو پکار رہی ہے کہ تم اپنے گردوپیش میں لادینیت اور فواحش کی جو یلغار دیکھ رہے ہیں اور جس طرح سے زمین کا سینہ بےحیائی کے خودرو پودوں اور جھاڑیوں نے روک لیا ہے اور جگہ جگہ اللہ تعالیٰ سے انکار کرنے والوں اور دین کے دشمنوں کے جتھے منظم ہورہے ہیں اور گھروں سے لے کر منڈیوں اور بازاروں تک مسلمان معاشرے کا کوئی حصہ ایسا باقی نہیں رہا جو لادینیت کی لپیٹ میں نہ آچکا ہو۔ یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہے کہ دین کی دعوت دینے والوں کو جس توانائی، دردمندی، جرأت و جسارت اور حکمت و بصیرت سے کام لینے کی ضرورت تھی اس میں کمی آگئی ہے۔ لادینیت اور بےحیائی خرگوش کی چال دوڑ رہی ہے اور ہم اپنے وسائل اور اپنی تگ و دو میں کچھوے سے بھی کم رفتار ہونے کے باوجود میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ کہیں مادیت نے اپنا بسیرا کر رکھا ہے اور کہیں تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز میں الحاد اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ ہم حالات سے نبردآزما ہونے کی بجائے دین و دنیا میں تفریق کے قائل ہوچکے ہیں اور ہمارے اندر اس غلط فہمی نے بزدلی پیدا کردی ہے کہ باطل اس قدر توانا ہوچکا ہے کہ اس کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہا۔ یہ آیت ہمیں یہ شعور دے رہی ہے کہ باطل فطرت کی پکار نہیں۔ انسانی ضمیر کے لیے یہ اجنبی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زمین اس کے لیے سازگار نہیں، لیکن جب اس زمین کا وارث سو جاتا ہے تو پھر جڑی بوٹیوں اور خودرو پودوں کو سر اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہر طرح کے منکرات پائوں پسارنے لگتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس باغ کے مالی کہیں سوگئے ہیں یا مرکھپ گئے ہیں۔ اس لیے اس امت کے دردمند لوگوں کو اس آیت کی پکار پر کان لگانے ہوں گے ورنہ قیامت کے دن شرمندگی اور دنیا میں ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
Top