Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور کہہ دے حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا تھا۔
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ بشارت سنا دینے کا حکم دیا جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد پوری ہوگئی اور آپ ﷺ فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپ ﷺ انھیں ایک لکڑی کے ساتھ کچو کے مارتے جاتے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور یہ کہتے جاتے تھے : (جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا ہے۔“ (جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ) [ سبا : 49 ] ”حق آگیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔“ [ بخاری، التفسیر، سورة بني إسرائیل، باب : (و قل جاء الحق وزھق الباطل) : 4720 ] اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 3 : ”ہمیشہ سے“ کا مفہوم ”كَانَ“ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی نے لکھا ہے : ”أَیْ کَانَ غَیْرَ مُسْتَقَرٍّ وَلَا ثَابِتٍ فِيْ کُلِّ وَقْتٍ“ کہ باطل ہر دور میں یعنی ہمیشہ سے نا پائیدار ہے۔
Top