Al-Qurtubi - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا بیشک باطل نابود ہونے والا ہے۔
آیت نمبر 81 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ امام بخاری اور ترمذی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا ہے : حضور نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ معظمہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ اپنے ہتھ کی چھڑی سے انہیں کچو کے دینے لگے۔۔۔ اور کبھی فرمایا : بعود (لکڑی سے مراد چھڑی ہی ہے) ۔۔۔ اور ساتھ فرماتے : جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا (آگیا ہے حق اور مٹ گیا ہے باطل بیشک باطل مٹنے والا ہی تھا) حق آگیا ہے اور باطل کبھی نہیں آئے گا “۔ یہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ اور انہوں نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح مسلم کی حدیث میں نصبا ہے۔ اور ایک روایت میں صنما ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : اس عدد کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک دن میں ایک بت کی تعظیم اور پرستش کرتے تھے اور ان کے بڑے (اور سردار) کو دو دونوں کے ساتھ خاص کرتے تھے۔ (یعنی اس کی پرستش دو دن کرتے تھے) اور آپ کا قول : فجعل یطعنھا بعود فی یدہٖ کہا جاتا ہے : بی شک وہ کیچ کے ساتھ مضبوط اور پختہ کھڑے کئے گئے تھے اور جب بھی آپ ﷺ ان میں سے کسی بت کے چہرے پر چھڑی لگاتے تو وہ گدی کے بل پیچھے گرجاتا یا گدی پر مارتے تو وہ اپنے چہرے کے بل گرپڑتا۔ اور آپ فرما رہے تھے : جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا اسے ابو عمر اور قاضی عیاض نے بیان کیا ہے۔ اور قشیری نے کہا ہے : کوئی بت باقی نہیں پچا مگر وہ اپنے بل گرگیا پھر آپ نے انکے بارے حکم دیا تو وہ توڑ دیئے گئے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں مشرکین کے بتوں اور دیگر تمام بتوں کو توڑنے پر دلیل ہے جب ان پر غلبہ پالیا جائے۔ اور اس میں معنوی طور پر باطل کے تمام آلات کو توڑنا داخل ہے، اور ہر وہ شے جو صرف اللہ تعالیٰ کی معصیت اور نافرمانی کے لئے استعمال ہو مثلاً آلات موسیقی جیسے ستار، سارنگی اور وہ مزامیر جن کا سوائے لہو ولعب اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کرنے کے اور کوئی مقصد اور معنی نہیں۔ ابن منذر نے کہا ہے : أصنام کے معنی میں وہ صورتیں بھی ہیں جو مٹی، لکڑی اور ان کے مشابہ چیزوں سے بنائی جاتے ہیں اور ہر وہ شے جسے لوگ بناتے ہیں اور ان میں سوائے اس لہو کے جس سے منع کیا گیا ہے اور کوئی منفعت نہ ہو۔ ان میں سے کسی شے کو پیچنا جائز نہیں سوائے ان بتوں کے جو سونے، چاندی، لوہے اور تانبے وغیرہ سے بنائے گئے ہوں، جب انہیں موجودہ حالت سے تبدیل کردیا جائے اور وہ پگھلا ہوا ٹکڑا یا کٹا ہوا ٹکڑا بن جائے تو پھر اس کو بیچنا اور اس کے عوض کوئی شے خریدنا جائز ہے۔ مہلب نے کہا ہے : باطل آلات میں سے جو توڑ دیئے جائیں اور انہیں توڑنے کے بعد روک کر محفوظ رکھنے میں منفعت اور فوائد ہوں تو ان ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کا ان کا مالک ہی زیادہ حقدار ہے، مگر یہ کہ امام وقت مالی سزا دینے اور اس میں مزید سختی اور شدت کے لئے انہیں آگ کے ساتھ جلانا مناسب سمجھتا ہو، جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے جلانے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اور حضور نبی کریم ﷺ نے ان لوگوں کے گھروں کو جلانے کا ارادہ فرمایا جو نماز باجماعت سے پیچھے رہتے تھے ،۔ اور یہی مالی سزا میں اصل اور بنیاد ہے، اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کا ارشاد ہے اس اونٹنی کے بارے میں جس پر اس کی مالکہ نے لعنت کی ہو :” تم اسے چھوڑ دو کیونکہ اس پر لعنت کی گئی ہے، “ تو آپ ﷺ نے اس کی مالکہ کو ادب سکھانے کے لئے اس سے اس کی ملکیت ختم کردی، اور یہ اس کے لئے اس قول کی سزا ہے جو اس نے اس کے خلاف کہا اس کے ساتھ اس نے اسے پکارا۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اس دودھ کو جو پانی کے ساتھ ملایا گیا، اس کے مالک پر بہا دیا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ جو کچھ ہم نے آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے اسے حضور ﷺ کے اس ارشاد میں دیکھا جاسکتا ہے : ” قسم بخدا ! حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما اسلام ایک عادل حاکم کی حیثیت سے اتریں گے اور ضرور صلیب کو ٹوڑدیں گے، اور خنزیر کو یقینا قتل کریں گے اور ضرور جزیہ لگائیں گے اور یقینا نوجوان اونٹنیاں چھوڑدی جائیں گی اور انہیں پکڑنے کی کوشش نہیں کی جائے گی “ الحدیث۔ اسے صحیحین نے نقل کیا ہے۔ اور اسی باب سے حضور نبی کریم ﷺ کا اس پردے کو پھاڑنا بھی ہے جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں، اور یہ بھی تصویروں اور آلات ملاہی کو فاسد اور خراب وبرباد کرنے پر دلیل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، اور یہ سب ان کو بنانے سے روکتا ہے اور ان کے مالک پر انہیں تبدیل کرنے کو واجب قرار دیتا ہے۔ بیشک یہ صورتیں بنانے والوں کو (اور ان کے مالکوں کو) قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان کو کہا جائے گا : انہیں زندہ کرو جنہیں تم نے بنایا ہے اور تیرے لئے یہ کافی ہے، اور عنقریب اس کا بیان سورة النمل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ قولہ تعالیٰ : وقل جآء الحق یعنی اسلام آگیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حقو سے مراد قرآن کریم ہے، یہ حضرت مجاہد نے کہا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ مراد جہاد ہے۔ وزھق الباطل کہا گیا ہے : باطل سے مراد شرک ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس سے مراد شیطان ہے : یہ حضرت مجاہد نے کہا ہے۔ اور درست یہ ہے کہ لفظ میں ممکنہ حد تک تعمیر ہے پس تفسیر یہ ہوگی کہ شریعت آگئی تمام احکام کے ساتھ جن کو وہ، تضمن ہے۔ وزھق الباطل اور باطل باطل ہوگیا۔ اور اسی سے زھوق النفس بھی ہے یعنی اسکا باطل ہونا۔ کہا جاتا ہے : زھقت نفسہ تزھق زھوقا، وأزھق تھا (اس کا نفس باطل ہوگیا، اور میں نے اسے باطل کردیا) ۔ ان الباطل کان زھوقًا یعنی اس کے لئے بقا نہیں ہے، اور حق وہ ہے جو ثابت ہوتا ہے۔
Top