Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو، جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی اور جو لوگ انکار کرنے والے ہیں اپنے اوپر اصلی ظلم ڈھانے والے وہی ہیں۔
انفاق کی دلیل اور اس کی تسہیل : اوپر آیت 245 میں انفاق کی جو دعوت گزری ہے، یہ اس کی مزید تفصیل ہے۔ مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ میں جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔ انفاق کی دلیل بھی ہے اور اس کی تسہیل بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تم سے انفاق کا جو مطالبہ کر رہا ہے تو یہ تم پر گراں نہ گزرے۔ وہ تم سے کوئی تہاری چیز نہیں مانگ رہا ہے بلکہ اپنی ہی بخشی ہوئی چیز مانگ رہا ہے۔ پھر یہ نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے بخشا ہے اس سارے کے لیے اس کا مطالبہ ہے بلکہ وہ اس میں سے صرف ایک حصہ کے انفاق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس دنیا کے مال و متاع کا کوئی ابدی و دائمی نفع ہے تو صرف اسی صورت میں ہے جب آج اس کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے اس کو ایک لازوال خزانے کی صورت میں تبدیل کرلو اس لیے کہ آگے جو دن آنے والا ہے اس میں نفع پہنچانے والی چیز اگر کوئی ہے تو صرف وہ نیکی ہے جو اس دنیا میں کمائی گئی ہو۔ اس کے سوا اس عالم میں کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ اس دنیا میں خریدو فروخت سے بھی کام چل جاتے ہیں، دوستیاں بھی کام دے جاتی ہیں اور سفارشیں بھی بعض اوقات نفع پہنچا دیتی ہیں لیکن اس دنیا میں ان چیزوں کی ساری راہیں بند ہوں گی، وہ صرف ایمان اور عمل صالح کے نتائج کے ظہور کی دنیا ہوگی۔ لفظ بیع کا مفہوم ہم نے یہاں خریدو فروخت دونوں لیا ہے اس کی وجہ، جیسا کہ ہم کسی دوسری جگہ اشارہ کرچکے ہیں، یہ ہے کہ جب صورت چیز سے چیز کے مبادلہ کی ہو تو بیچنا اور خریدنا دونوں اس کے مفہوم میں شامل ہوجاتا ہے۔ الْكٰفِرُوْنَ سے مراد ہمارے نزدیک وہ لوگ ہیں جو اس طرح کے کسی دن کے ظہور کے منکر ہیں جس سے یہاں ڈرایا گیا ہے، جو لوگ آخرت کے منکر ہوں ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کل کے ادھار کے لیے آج کے نقد کو قربان کرسکیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اگرچہ یہ لوگ اپنی دانست میں اپنے آپ کو بہت حقیقت پسند سمجھتے ہیں اور ان کا گمان یہ ہے کہ وہ اپنے کو نفع پہنچا رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ اپنی جانوں پر سب سے بڑے ظلم ڈھانے والے ہیں۔
Top