Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور تم اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشہ سے قتل نہ کرو، ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ ۭ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَاِيَّاكُمْ ۭ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۔ قتل اولاد کی ممانعت : یہ اوبر والی بات ہی پر متفرع ہے۔ یعنی جب اصل حقیقت یہ ہے کہ اصل رازق خدا ہی ہے تو کسی دوسرے کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسری جان کو اس اندیشہ سے ہلاک کردے کہ وہ کھائے گی کیا۔ عرب جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردینے کی جو سنگ دلانہ رسم جاری تھی اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ عورت کوئی کماؤ فرد تو ہے نہیں تو لڑکیوں کی پرورش کا بوجھ کیوں اٹھایا جائے۔ قرآن نے اس سنگ دلانہ جرم کے اصل محرک پر ضرب لگائی اور اس بربریت کا خاتمہ یا۔ موجودہ زمانے میں ضبط ولادت کے نام سے جو تحریک چل رہی ہے اور جس کو بروئے کار لانے کے لیے روز نت نئی ترکیبیں ایجاد ہورہی ہیں۔ وہ بظاہر تو وحشیانہ نہیں ہیں لیکن فلسفہ اور عیقدہ بنیادی طور پر اس کے اندر بھی وہی کار فرما ہے جو عرب جاہلیت کی بربریت کا محرک تھا۔ جاہل عربوں کی طرح موجودہ زمانے کا متمد انسان بھی اپنے آپ کو دوسروں کا رازق سمجھ بیٹھا ہے۔ قرآن نے " نحن نرزقھم وایاکم " فرما کر اس گمراہی کی اصلاح کی ہے۔ عرب کے وحشی تو اس حقیقت کو سمجھ گئے اور انہوں نے اپنی اصلاح بھی کرلی لیکن اس زمانے کے پڑھے لکھے جناتوں کو کون سمجھائے۔
Top