Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور اپنی اولاد کی مفلسی کے خوف سے قتل نہکرو ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی بیشک ان کا قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے
(رکوع نمبر 4) اسرارومعارف اب اگلا حکم اولاد کے ساتھ تعلق کا ارشاد ہوا کہ لوگ اولاد کو قتل کردیتے خصوصا بیٹیوں کو اور یہ رواج عہد جاہلیت میں بڑے فخر کی بات سمجھا جاتا تھا اس پر ارشاد ہوا کہ اللہ جل جلالہ سب کا رازق ہے ، اولاد دیتا ہے تو اسے بغیر رزق کے دنیا میں پیدا نہیں کرتا بلکہ انہیں بھی رزق دیتا جیسے خود تمہیں دیتا ہے اور ان کا قتل تو بہت بڑا گناہ ہے ۔ (ضبط تولید) آج کے دور کا یہ مسئلہ کہ آبادی میں اضافہ روکنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر ضبط تولید کو رواج دیا جا رہا ہے بھی بہت ہی گناہ اگرچہ یہ قتل اولاد نہ بھی ہو تو گناہ تو بہت بڑا ہے کہ اس کا سبب بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ ضروریات زندگی مہیا نہ ہو سکیں گی ، ہاں قتل کا اطلاق اس پر ہوگا جب بچے میں جان پڑجائے جو حمل کے ایک سوبیس دن بعد پڑتی ہے ، لہذا اس سے پہلے ایسا کرنا قتل نہ ہوگا مگر سخت گناہ ہے اور کسی دوسری وجہ مثلا عورت کی صحت کے سبب یا اس کی زندگی کو خطرہ ہو تو جائز ہے ، ہاں پھر بھی ایسا عارضی علاج جو مانع حمل ہو درست ہوگا مستقل اپریشن وغیرہ کرانا جائز نہیں کہ تخلیق باری میں تبدیلی حرام ہے بجز اس کے کہ کوئی معقول وجہ جواز ہو ۔ اگلا حکم زنا کے متعلق ہے جو ایک ایسی لعنت ہے کہ نہ صرف بہت بڑی بےحیائی ہے بلکہ تباہی کا راستہ بھی ہے کہ عموما قتل انسانی کا باعث بنتا ہے اور افراد سے لے کر اقوام وممالک تک میں قتل و غارت گری شروع کرا دیتا ہے ، پھر اس سے پیدا ہونے والا انسانی بچہ ایک طرح سے معاشرے میں کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوتا ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو اس کا رد عمل اس کی ذات میں اتنا شدید ہوتا ہے کہ انتقاما معاشرے کو برائی میں دھکیلنے میں پوری کوشش کرتا ہے ، اسی لیے ارشاد ہوا کہ اس کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ایسے امور سے بچنا بھی ضروری ہے جو زنا کا سبب بن سکتے ہوں اور قتل اولاد کے ساتھ اس کا ذکر اس لیے بھی ہے کہ ایک طرح سے زانی بھی اپنی نسل قطع کرتا ہے اور اگر اولاد بھی ہوجائے تو اس کا والد نہیں کہلا سکتا ، اسی لیے اس فعل پر اسلام میں سخت ترین یعنی سنگسار کی سزا ہے ۔ اگلا حکم دوسروں کے قتل سے متعلق ہے یہ اپنی اولاد کے قتل سے ممانعت تھی تو دوسرے بھی کسی کی اولاد ہیں اور انہیں حیات ان کے رب نے دی ہے ، لہذا ان سے چھیننا ہرگز درست نہیں بلکہ بہت بڑا جرم ہے ، سوائے اس کے کہ اللہ جل جلالہ ہی کسی کے قتل کا حکم دے یعنی قصاص میں قتل ہو یا جہاد میں مقابل کو قتل کیا جائے اور اگر کسی کو ناحق قتل کر ہی دیا جائے تو اللہ جل جلالہ نے اس کے وارثوں کو حق دیا ہے کہ وہ اس کا قصاص لے یا اگر وارث نہ ہو تو ریاست وارث ہوگی اور حکومت قصاص لے گی جس کا اپنا طریقہ ہے کہ ثبوت ہو پھر وارث کی پسند کہ دیت لے کر معاف کرے یا بدلے میں قتل کرے کہ اس کا اسے حق دیا گیا ہے مگر یہ یاد رہے کہ وہ بھی زیادتی نہ کرے اور ظلم کا مرتکب نہ ہو ، ورنہ جو تائید اسے حاصل تھی وہ بحیثیت مظلوم تھی ، اب اگر وہ خود ظالم بن گیا تو ظاہر ہے تائید باری تو مظلوم کا ساتھ دے گی ، کہ اگر کسی نے ظلم کیا ہے تو بدلہ لینا تو درست ہے مگر انصاف شرط ہے کہ ظلم کا جواب بھی ظلم سے دیا گیا تو معاشرے میں ظلم پھیلے گا حالانکہ بدلہ اور انصاف کا تقاضا تو ظلم کی راہ روکنا ہے اور قیام امن ہے ۔ اور یتیم کے مال کے قریب مت پھٹکو یعنی ایسے طریقے نہ اپناؤ کہ اس کا مال ہتھیا سکو ، ہاں احسن طریقے سے جس میں اس کی بہتری پر جائز طور پر خرچ کیا جاسکے ضرور خرچ کرو ، تاآنکہ وہ خود جوان ہو کر اپنا کام سنبھال لے ، مال تو کسی کا بھی ناجائز نہیں مگر دوسرے مطالبہ تو کرسکتے ہیں یتیم ایک ایسا بچہ ہوتا ہے جو نہ اپنے مال کی حفاظت کا اہل ہوتا ہے اور نہ کوئی مطالبہ کرسکتا ہے ۔ (معاہدات) نیز جو عہد بھی کرو وہ ضرور پورا کرو کہ سب سے پہلا عہد رب العالمین کے ساتھ اطاعت کا ہے جو ازل میں کیا گیا پھر اگر کسی نے کلمہ پڑھا تو ایک نیا عہد کرلیا جو نبی کے ذریعہ سے اللہ کی مکمل اطاعت کا تقاضا کرتا ہے ، نیز معاملات اور کاروبار حیات میں مختلف معاہدے کرنا پڑتے ہیں جن کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور بغیر شرعی عذر کے انہیں توڑا نہیں جاسکتا ، بشرطیکہ وہ شرعا بھی جائز ہوں اگر کوئی ایسا وعدہ کردیا گیا جس کے بارے بعد میں علم ہوا کہ شرعا جائز نہیں تو اسے پورا نہ کیا جائے گا بلکہ فریق ثانی کو بھی اطلاع کر کے ختم کردیا جائے گا اور یاد رکھو جیسے دیگر فرائض وواجبات کی پرسش ہوگی ، اسی طرح عہد کی پرسش بھی کی جائے گی یعنی اس کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہے ۔ (ناپ تول) اور جب ناپ تول کرنے لگو تو پورا پورا ناپ کرو اور صحیح ترازو سے تولو کہ یہ کام فی نفسہ بہترین بھی ہے ، اور اس کا نتیجہ بہت اچھا ہے ، انسانی رشتے اور تعلقات جوڑنے میں بھی اور لین دین میں کمی نہ کرنا تجارتی ترقی اور کثرت مال کا سبب بھی ہے ۔ علماء کے مطابق ملازم تنخواہ کے مقابلے میں اور مزدور اجرت کے مقابل اپنا کام پورا اور دیانتداری سے کرے کہ یہ بھی ناپ تول میں داخل ہے ۔ اور جن باتوں کی کوئی صحیح خبر نہ ہو ان کے پیچھے مت پڑو یعنی بلا تحقیق بات کو مت بڑھاؤ ، یہ کلیہ زندگی کے تمام امور میں کامیابی کا ضامن اور سکون کا باعث ہے کہ معاشرے میں فسادات اور بدامنی کا ایک بہت بڑا سبب سنی سنائی باتوں پہ لوگوں کا رد عمل ہے ، ” فقیر کا دوست ایک جج تھا ، ایک بار اس نے پرسکون رہنے کے لیے کوئی وظیفہ پوچھا تو عرض کیا کہ میری ایک عادت ہے گھر یا باہر وہ بات نہیں سنا کرتا جو میرے متعلق نہ ہو یا جس میں میری کوئی ذمہ داری نہ ہو اگر ہو سکے تو یہی طریقہ اپنا لو اور وظیفے اللہ جل جلالہ کی رضا کے لیے پڑھا کرو جو احادیث میں دیئے گئے ہیں ، بعد میں ملاقات پر بتانے لگے کہ بیشتر پریشانی سے جان چھوٹ گئی ہے “۔ تو اکثر فساد اور خرابی بلاتحقیق باتوں کی پیدا کردہ ہوتی ہے ، لہذا ایسی باتوں کو ترک کردینا ضروری ہے ، نیز سماعت و بصارت کی کوئی فضول نعمت نہیں کہ اسے فضول کاموں میں لگایا جائے یہ تو اللہ جل جلالہ کی بہت بڑی عطا ہے اور اس کے بارے میں پرسش ہوگی کہ اسے کہاں کہاں خرچ کیا ۔ (فواد یا دل بہت قیمتی دولت ہے) انسانی دل یا فواد دل کا وہ اندرونی حصہ یا کیفیت جس میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ تو انسان کو اس لیے عطا ہوا تھا کہ اس میں اللہ جل جلالہ کی طلب پیدا ہو ، اس سے محبت پیدا ہو اور اس کے عشق کا شعلہ بھڑکے مگر انسان نے خرافات اور فضول باتیں سن کرنا روا اور فضول مناظر دیکھ کر اسے برباد کردیا ، گویا یہ ثابت ہوا کہ سماعت و بصارت تک کے اثرات دل پہ مرتب ہوتے ہیں تو صالحین کو سننا ، دیکھنا اور اس غرض کے لیے ان کی مجالس میں جانا ضروری ٹھہرا کہ دل کی نعمت کا بھی محاسبہ کیا جائے گا ، اور زمین پر اکڑ اکڑ کر مت چلو یعنی اپنی چال ڈھال متکبرانہ نہ بناؤ کہ تمہارا چلنا زمین کو پھاڑنے سے تو رہا اور بلندی میں پہاڑ تک تم سے اونچے ہیں ، لہذا نہ صرف اعمال وکردار میں بلکہ لباس ، چال ڈھال ، اور بول چال میں بھی اپنے بندہ ہونے کا اور اللہ جل جلالہ کی بڑائی کا احساس وجذبہ کار فرما رہنا چاہئے کہ انسان بہرحال محتاج ہے اور بڑائی صرف اللہ جل جلالہ کو سزاوار ہے ۔ یہ جس قدر احکام ارشاد ہوئے اللہ جل جلالہ کی تو حید صرف اسی کی عبادت ، والدین سے حسن سلوک قرابتداروں ، مسافروں ، اور مساکین سے حسن سلوک ، زنا اور بدکاری سے اجتناب ، ناپ تول میں کمی نہ کرنا ، محض سنی سنائی پر بات نہ بڑھانا اور تکبر کی چال تک سے بچنا یہ اتنے واضح اور ضروری ہیں کہ ان کے خلاف عمل کی برائی ظاہر بھی ہے ، اور اللہ جل جلالہ کو سخت ناپسند بھی ، سبحان اللہ اسلام کیا خوبصورت طرز حیات ہے اور کس قدر بہترین اخلاق کے مجموعے کا نام ہے ۔ یہ کس قدر اللہ جل جلالہ کا احسان عظیم ہے کہ اے مخاطب بذریعہ وحی تجھے یہ سب حکیمانہ باتیں تعلیم فرمائی ہیں اور اللہ جل جلالہ کے نبی نے نہ صرف پیغام پہنچایا بلکہ چشم عالم کو کر کے دکھایا اور انہیں بنیادوں پر ایک معاشرہ ، ایک ملک اور ایک سلطنت تعمیر فرمائی ، لہذا ایسے کریم اور معبود برحق کے ساتھ کبھی بھی اور کسی کو بھی شریک عبادت نہ ٹھہرا اور نہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم کا ایندھن بنے گا اللہ جل جلالہ کے احسانات کو دیکھ اور اے انسان ذرا اپنی بات کا خیال کر کہ تو اپنے لیے تو لڑکے پسند کرتا ہے اور بیٹی ہو تو قتل کرنے تک جاتا ہے اور تیرا یہ بھی خیال ہے کہ تجھے اولاد اللہ جل جلالہ ہی دیتا ہے ، تو پھر کیا تجھے بیٹے دے کر اس نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کرلیں کہ تو فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہتا ہے یعنی ایک طرف تعلیم نبوت پہ اعتراض ہے تو دوسری جانب ایسی غیر معقول باتوں پہ اعتقاد ہے جو خود تیرے پیمانے سے بھی بالکل نامناسب ہیں ، لہذا تو یہ بہت سخت بات کہتا ہے اور بہت بڑا جرم کرتا ہے کہ عموما مشرکین کے عقائد شرعا تو خراب ہوتے ہی ہیں ، انسانی عقل بھی انہیں رد کردیتی ہے ۔
Top