Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
(اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو، ناداری کے اندیشہ سے، ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے۔
وَلاَ تَقْتُلُوْٓا اَوْلاَ دَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاَقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 31) (اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو، ناداری کے اندیشہ سے، ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے) قتلِ اولاد کی ممانعت اس سے پہلے ارشاد فرمایا گیا کہ رزق کے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ اس کی مشیت ہے جس نے انسانوں میں رزق اور وسائل رزق میں تفاوت اور تفاضل رکھا ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے خوب جانتا ہے کہ انسانوں میں مصنوعی طور پر رزق میں برابری کی کوشش اللہ تعالیٰ کے نظام میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ اس کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ اگر انسانوں میں جدوجہد کے جذبے کو باقی رکھنا ہے اور افادہ و استفادہ کی روح سے انسانوں کے درمیان ایک تعلق کو پائیدار بنانا ہے تو اس کے لیے انسانی شکلوں ‘ انسانی جسموں ‘ انسانی صلاحیتوں ‘ انسانی توانائیوں میں تنوع ناگزیر ہے۔ اور اسی سے پیدا ہونیوالا تفاوت بھی انسانی زندگی کا حسن ہے جسے ہم نادانی میں عدم مساوات کہہ دیتے ہیں۔ جس معاشرے میں بھی مصنوعی طریقے سے مساوت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی وہ معاشرہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا۔ جس طرح افراد کو ان کی محنتوں کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کم و بیش رزق عطا فرماتا ہے اسی طرح قوموں میں بھی رزق کی تقسیم اسی پیمانے سے ہوتی ہے۔ نہ افراد کو اس غلط فہمی میں مبتلا ہونا چاہیے کہ رزق کے خالق ہم ہیں اور نہ قوموں کو اس گمراہی کا شکار ہونا چاہیے کہ وسائل رزق کے مالک ہم ہیں۔ لیکن یہ انسانی حادثہ ہے کہ انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اپنے رزق کا بجٹ خود بنانے لگتا ہے اور جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ رزق صرف کمانے والے ہاتھوں سے وجود میں آتا ہے تو وہ ایسے افراد کو ختم کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے جن سے کسب و اکتساب میں مدد نہیں لی جاسکتی۔ یہی وہ جہالت ہے جس کی وجہ سے دنیا میں قتل اطفال اور اسقاطِ حمل کے جرائم وجود میں آتے رہے۔ قدیم زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ لڑکیاں خاندان پر بوجھ ہوتی ہیں ‘ کیونکہ وہ کمائی میں ہاتھ نہیں بٹاتیں۔ اس بوجھ کو کم کرنا ہماری ضرورت ہے۔ چناچہ وہ یا تو لڑکی کو پیدا نہ ہونے دیتے یا پیدا ہونے کے بعد زندہ درگور کردیتے۔ لیکن جیسے جیسے برائی کو علم و عقل کی سپورٹ ملتی گئی ویسے ویسے اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ پہلے صرف لڑکیاں اس کا شکار ہوتی تھیں ‘ پھر آبادی کے حوالے سے ہر آنے والے کو روکنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے اسقاطِ حمل یا قتل اطفال کو ذریعہ بنایا گیا۔ لیکن آج اسی برائی نے منع حمل یعنی ضبط ولادت اور منصوبہ بندی کا نام اختیار کرلیا ہے۔ اندیشہ وہی ہے جو قدیم زمانے میں تھا کہ ” آنے والے کو رزق کہاں سے ملے گا ؟ “ وہ بھی اپنے آپ کو رازق سمجھتے تھے آج بھی قومیں اپنے آپ کو وسائل رزق کا خالق سمجھتی ہیں۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ ان معاشی بنیادوں کو بالکل منہدم کردیتی ہے۔ وہ صاف صاف حکم دیتی ہے کہ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ قتل نہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انھیں قتل نہ کرو ‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسقاطِ حمل اور منع حمل کی تدابیر بروئے کار مت لائو۔ تمہیں بجائے کھانے والوں کو گھٹانے کی کوشش کرنے کے وسائل رزق کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام محدود طور پر تو میاں بیوی کو کمزور صحت یا کسی اور جائز سبب سے اولاد کو محدود رکھنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک ایسا ذہن تیار کرنا جس سے اولا دایک زحمت بن کر رہ جائے اور ساتھ ساتھ ذہن میں یہ بات بیٹھتی چلی جائے کہ وسائل رزق کے پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہر آنے والا بچہ ہمارا دست نگر بن کے آتا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے بےحیائی بھی پھیلتی ہے اور اسلام کے تصور رزق پر چوٹ بھی پڑتی ہے۔ اور آدمی بجائے اللہ سے مانگنے کے اپنے ناخن تدبیر یا اپنی حکومت کو اپنا خالق سمجھ لیتا ہے۔ تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اللہ نے کبھی کسی علاقے میں آبادی کی ضرورتوں سے کم وسائل رزق پیدا نہیں فرمائے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ وسائل انسانی جدوجہد کے انتظار میں ہوں۔ البتہ ان وسائل میں کمی اس وقت محسوس ہونے لگتی ہے جب فاسد نظام اور فاسق ہاتھوں کی وجہ سے وسائلِ رزق کی تقسیم میں خیانت ہونے لگتی ہے اور کچھ لوگ ان وسائل پر اس طرح قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ عام لوگوں تک انکا فائدہ پہنچ نہیں پاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے غالباً 1974 ء میں ملکی اور غیر ملکی زرعی ماہرین کی ایک ٹیم کو ملک کے وسائلِ رزق کے سروے کا کام سونپا گیا تھا ‘ انہوں نے سروے کرنے کے بعد جو رپورٹ دی وہ یہ تھی کہ پاکستان کے زرعی وسائل اگر یہ تمام و کمال بروئے کار لائے جائیں (جن میں سے بیشتر پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے) تو ایک ارب بارہ کروڑ افراد کی غذائی ضروریات کے لیے کافی ہوسکتے ہیں۔ اندازہ کیجیے ہماری تعداد شاید پندرہ کروڑ بھی نہیں۔ اور ان میں کھانے والوں کی تعداد بمشکل آٹھ کروڑ ہوگی۔ لیکن ہم گندم ‘ چینی ‘ اور نہ جانے کیا کیا باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ اس رپورٹ کو ” ڈرلنگ رپورٹ “ کہا جاتا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے وسائل رزق میں کوئی کمی نہیں اور نہ کبھی پروردگار کمی ہونے دیتا ہے البتہ ہمارے مسائل ان ہاتھوں کی وجہ سے ہیں جن کے نمائندے فوج ‘ بیوروکریسی اور پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہیں ہوگی اس وقت تک خاندانی منصوبہ بندی کرتے رہئے لیکن مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اللہ کا نظام یہ ہے ‘ وہ ایک طرف اپنے اوپر اعتماد ‘ توکل اور اپنی ذات سے دعا کا حکم دیتا ہے اور دوسری طرف اپنے دین کی بالا دستی اور جہاد کا حکم دیتا ہے۔ ان دونوں کی اطاعت پر وسائل رزق کی کمی بیشی کا دارومدار ہے۔ وہ کبھی آبادی کو کم کرتا ہے کبھی وسائل رزق میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن یہ کام اس کا ہے جو ہم نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ اور جو کام ہمارا ہے ہم اسے کرنے کے لیے تیار نہیں۔ مدینے کی ریاست کی تاریخ گہری نظر سے پڑھ لیجیے ‘ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ایک ایسا ملک جس میں وسائل نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی ان کی غذائی ضرورتیں کیسے پوری ہوتی تھیں۔
Top