Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 31
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ١ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا
وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو تم اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد خَشْيَةَ : ڈر اِمْلَاقٍ : مفلسی نَحْنُ : ہم نَرْزُقُهُمْ : ہم رزق دیتے ہیں انہیں وَاِيَّاكُمْ : اور تم کو اِنَّ : بیشک قَتْلَهُمْ : ان کا قتل كَانَ : ہے خِطْاً كَبِيْرًا : گناہ بڑا
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف قتل نہ کرنا (کیوں کہ) ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں، کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے
31۔ : اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کو ماں باپ کا حق ادا کرنے کی تاکید فرمائی تھی اب اس آیت میں ماں باپ کو اولاد کی شفقت کی تاکید ہے سورة الخل میں گذر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نبی ہونے سے پہلے عرب میں یہ رسم تھی کہ لڑکیوں کی آیت سے یہ بات نکالی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ شفیق ہے کیونکہ اہل عرب کے ان ماں باپ کی سختی کو جو لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے اللہ کی شفقت نے گوارا نہیں رکھا۔ اصل بات یہ ہے کہ علماء نے اس آیت سے وہ بات نکالی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شفقت ماں باپ کی شفقت سے بڑھی ہوئی ہے یہ مثال کے طور پر ایک کہنے کی بات ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو مخلوق کی شفقت کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ چناچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت اور شفقت کے سو درجے خود اللہ تعالیٰ کے برتاؤ میں ہیں 1 ؎۔ اسی واسطے صحیحین میں انہیں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے ہے کہ بڑے سے بڑا کافر بھی اگر اللہ کی رحمت کا حال جان لیوے تو جنت سے کبھی نامید نہ ہو 2 ؎ اور انہی ابوہریرہ ؓ کی روایت سے صحیحین میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کیا تو یہ ایک نوشتہ لکھ کر عرش معلے پر اپنے پاس رکھ لیا ہے کہ اللہ کے غصہ پر اس کی رحمت غالب ہے 3 ؎۔ ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ ؓ بن عمر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت تنور جھونکتے جھونکتے آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اس کی گود میں ایک بچہ بھی تھا اور وہ عورت آن کر آنحضرت ﷺ سے کہنے لگی کہ کیا آپ ﷺ یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اور جس قدر ماں اپنے بچہ سے الفت کرتی ہے اس سے زیادہ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اس عورت نے کہا کہ میں تو اپنے بچہ کو تنور کی آگ کی لپٹ سے بھی بچا لیتی ہوں پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ میں کیوں کر ڈال دیوے گا۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ اس عورت کی یہ بات سن کر آنحضرت ﷺ اس قدر روئے کہ پریشان ہوگئے اور پھر آپ نے فرمایا کہ سچ تو یہ ہے کہ اللہ انہی سرکشوں کو آگ میں ڈالے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں اور اس کو وحدہ لاشریک نہیں جانتے 4 ؎۔ ابن ماجہ کی سند میں ایک راوی اسمعیل بن یحییٰ اگرچہ ضعیف ہے لیکن صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے 5 ؎۔ کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اس حق کے ادا کرنے کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہوگا کہ وہ ان کو دوزخ کے عذاب سے بچائے۔ اس صحیح حدیث سے ابن ماجہ کی روایت کی پوری تقویب ہوجاتی ہے کیونکہ مضمون دونوں روایتوں کا ایک ہی ہے۔ خطا کا ایک لفظ تو سزا وجزا کے وزن پر بھول چوک کے معنوں میں ہے۔ عرب لوگ جیتی لڑکیوں کو بھول چوک سے نہیں دفن کیا کرتے تھے بلکہ لڑکیوں کے بیاہ شادی کے خرچ سے ڈر کر ان لڑکیوں کو جان بوجھ کر جیتا دفن کیا کرتے تھے اس لیے اکثر سلف نے اس آیت میں خطا کے لفظ کو صدق وکذب کے وزن پر پڑھا ہے جس کے معنے گناہ کے ہیں حاصل یہ ہے کہ ترجمہ میں چوک کا لفظ گناہ کے معنوں میں ہے بھول چوک کے معنوں میں نہیں ہے کیونکہ عرب کی جس رسم کی ممانعت میں یہ آیت نازل ہوئی ہے وہ رسم عرب میں بھول چوک کے طور پر جاری نہیں تھی اذا الشمس کورت میں آوے گا کہ قیامت کے دن جیتی لڑکیوں کو دفن کردینے کے جرم کی دریافت ہو کر قاتلوں کو خون ناحق کی سزادی جائے گی۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 356 ج 2 باب سعتہ رحمتہ اللہ تعالیٰ الخ۔ 2 ؎ صحیح مسلم ص 356 ج 2 باب سعتہ رحمتہ اللہ تعالیٰ الخ۔ 3 ؎ ایضا۔ 4 ؎ ابن ماجہ ص 328 باب مایرجی من رحمتہ اللہ تعالیٰ الخ۔ 5 ؎ تفسیر ہذاص 20 ج 3۔
Top