Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور نہ تو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھو اور نہ اس کو بالکل کھلا ہی چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۔ ہاتھ کو گردن سے باندھ لینا، تعبیر ہے انتہائی بخل اور خست کی اور ہاتھ کو بالکل کھلا چھوڑ دینا تعبیر ہے اسراف و تبذیر کی۔ اوپر آیات 26۔ 27 میں اسراف و تبذیر کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے اس کے باب میں غلط فہمی سے بچانے کے لیے یہ صحیح نقطہ اعتدال کی وضاحت فرمادی کہ منشائے الٰہی یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی ضروریات کے معاملے میں بالکل ہی بخیل و خسیس بن کر رہا جائے بلکہ صرف یہ مطلوب ہے کہ وہ اعتدال و کفایت شعاری کا رویہ اختیار کرے، نہ اپنے ہاتھ بالکل باندھ ہی لے، نہ ان کو بالکل کھلا چھوڑے دے، بلکہ اعتدال کے ساتھ اپنی جائز ضروریات پر بھی خرچ کرے اور دوسروں کے حقوق بھی ادا کرے۔ تَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا، یہاں تقعد اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں آیت 22 میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنے ہاتھ بالکل ہی کھلے ہوئے چھوڑ دوگے تو بالآخر اس کا نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ دوسروں کے حقوق کے معاملے میں سزاوار ملامت بھی ٹھہرو گے اور ادائے حقوق سے قاصر و درماندہ بھی ہو کر رہ جاؤگے۔
Top