Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
تم اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے نہ رکھو اور نہ اس کو پوری طرح کھول دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو۔
وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَمَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۔ اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطْ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرُ ط اِنَہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًم ا بَصِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 29۔ 30) (تم اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے نہ رکھو اور نہ اس کو پوری طرح کھول دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو۔ بیشک تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بیشک وہی اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور ان کو دیکھنے والا ہے۔ ) اعتدال کی ہدایت ہاتھ باندھنا استعارہ ہے بخل کے لیے اور ہاتھ کو کھلا چھوڑ دینا استعارہ ہے فضول خرچی کے لیے۔ اس سے پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ دولت چونکہ اللہ کی امانت ہے اس لیے اسے بےضرورت ‘ بےدریغ اور بےموقع اللے تللوں اڑانا امانت میں خیانت ہے۔ اسی کو اسراف اور فضول خرچی کہا گیا ہے۔ اس میں اللہ کے حق میں دخل اندازی کی جاتی ہے ‘ مال اس کا ہے لیکن مال پر قادر شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال میرا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اللہ کے برابر قرار دیتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ ایسا شخص شیطان کا بھائی ہے۔ اور شیطان کا کام اللہ کی پیدا کردہ ہر چیز کو غلط مصارف میں استعمال کرا کے غلط نتائج پیدا کرنا ہے۔ اور مال و دولت کے اثرات تو ہر معاشرے میں بےپناہ ہوتے ہیں۔ اسی سے خیر کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور اسی سے شر کی اشاعت میں کام لیا جاسکتا ہے۔ فسق و فجور کے زیادہ تر اسباب مال و دولت کے غلط استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام فضول خرچی سے سختی سے روکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس غلط فہمی کے پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کہ خرچ کرنے سے ہاتھ بالکل روک لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ چونکہ اللہ نے مال خرچ کرنے سے روکا ہے اس لیے مال بالکل خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ جائز ضرورتوں ‘ جائز جگہوں اور حقوق کی ادائیگی میں بھی خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔ اور جس طرح فضول خرچی بہت سارے مفاسد کا سبب بنتی ہے اسی طرح بخل بھی ہر صاحب مال کی تعمیر سیرت میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ جو شخص مال سے ناجائز حد تک محبت کرتا ہے وہ نہ اسے صدقاتِ واجبہ میں صرف کرے گا اور نہ صدقاتِ نافلہ میں ‘ معاشرے کے غریب لوگ اس کے تعاون سے محروم ہوجائیں گے اور وہ خود معاشرے کی محبت سے محروم ہوجائے گا۔ اس طرح سے معاشرے کی عمارت میں ایسی دراڑ پڑے گی جو بڑھتے بڑھتے شکست و ریخت تک پہنچ سکتی ہے۔ اسلام کی نشرو اشاعت، اعلائے کلمتہ الحق کے بیشتر اسباب، مسلمان معاشرے میں کمزور افراد کی دیکھ بھال اور گرے ہوئے عناصر کو اٹھا کر دوبارہ زندگی کے دھارے میں لانے کی کوشش ان تمام باتوں کا دارومدار جود و سخاوت اور مال خرچ کرنے کے جذبے پر ہے۔ اور جب یہ جذبہ بخل میں تبدیل ہوجاتا ہے تو یہ تمام ضرورتیں اور تمام مقاصد بروئے کار آنے سے رک جاتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے بخل کو بدترین برائی قرار دیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ بخیل آدمی جنت میں نہیں جاسکتا۔ اور ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مومن میں جو صفات بیان فرمائی ہیں ان کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مومن میں بخل کبھی نہیں ہوتا۔ مدینہ میں جس اسلامی ریاست کو تشکیل دینا پیش نظر ہے اور جو اسلامی معاشرہ وجود میں آنے والا ہے واضح سی بات ہے کہ ایسی بدترین صفات کی وہاں کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشا کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا ‘ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بےجا صرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعے سے ان بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے احکامی انتظامات کے ذریعے سے روک دے۔ آج اگر اسلامی حکومت قائم ہوتی تو بسنت جیسا نام نہاد تہوار ‘ جس میں از اول تا آخر جانوں کے ضیاع اور مال کے اتلاف کے سوا کچھ نہیں، پر فوراً پابندی لگا دی جاتی۔ کیونکہ اسلامی حکومت ایک مسلمان کی جان کو اس قدر اہمیت دیتی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ایک طرف کعبہ گر رہا ہو اور دوسری طرف ایک مسلمان کا خون بہہ رہا ہو تو میں پہلے مسلمان کو بچانے کی کوشش کروں گا۔ تو جس تہوار کے نتیجے میں مسلمانوں کی گردنیں کٹیں ‘ سڑکوں پر خون بہے ‘ شرم و حیا کا جنازہ نکل جائے ‘ چھتوں سے گر گر لڑکے بالے جانیں دیتے پھریں اور مختلف نقصانات کی شکل میں ضیاع مال کی انتہا نہ رہے ‘ اس کی اجازت دینا ان آیات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اسراف کو روکنے کے ساتھ ساتھ زکوۃ و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زر اندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک رائے عام پیدا کی گئی جو فیاضی اور فضول خرچی کا فرق خوب جانتی تھی اور بخل اور اعتدال میں خوب تمیز کرتی تھی۔ اس رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا ‘ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گل سرسبد بنادیا۔
Top