Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
، اور تو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کی طرف باندھا ہوا مت رکھ، اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے ورنہ تو ملامت کیا ہوا خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہے گا
پھر فرمایا (وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا) (اور تو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کی طرف باندھا ہوا مت رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے ورنہ تو ملامت کیا ہوا خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہے گا) اس آیت میں خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے مال خرچ کرتا رہے (لیکن گناہوں میں خرچ نہ کرے اور بالکل ہی ہاتھ روک کر نہ بیٹھ جائے کہ خرچ نہ کرے) اور جب خرچ کرنے لگے تو بالکل پوری طرح ہاتھ نہ کھول دے (کہ سارا مال ختم کردے) کیونکہ ایسا کرنے سے ملوم بھی ہوگا اور محسور بھی ہوگا، ملوم کا معنی ہے ملامت کیا ہوا اور محسور کا معنی ہے رکا ہوا یعنی عاجز بنایا ہوا، جب اپنے پاس کچھ بھی نہ رہے گا تو لوگ ملامت کریں گے جن لوگوں پر خرچ کیا ہے وہ بھی کہنے لگیں گے کہ ایسا بےتکا خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے، مال حاجات پورا ہونے کا ذریعہ بھی ہے اور مال کمانے کا ذریعہ بھی جب کچھ نہ رہے گا تو حاجتیں بھی پوری نہ ہوسکیں گی اور آئندہ مال کمانے میں بھی بےبسی ہوگی، بعض مفسرین نے فرمایا کہ ملوماً کا تعلق پہلی بات سے ہے جس کا معنی یہ ہے کہ خرچ کرنے سے ہاتھ روک کر بالکل ہی نہ بیٹھ جائے ورنہ لوگ ملامت کریں گے اور محسوراً کا تعلق دوسری بات ہے اور مطلب یہ ہے کہ خرچ کرنے میں اتنی زیادتی نہ کر کہ خود تنگدست ہو کر عاجز ہو کر رہ جائے، آیت کریمہ میں میانہ روی کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور میانہ روی ہمیشہ کام دیتی ہے حدیث شریف میں ہے الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ کہ خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے (مشکوٰۃ المصابیح ص 430) یعنی معیشت کی پریشانیوں کا آدھا حل یہ ہے کہ خرچہ میں میانہ روی اختیار کی جائے اور آدھا حل باقی دوسری تدبیروں میں ہے جو فرد یا جماعت اس سے غافل ہے وہ یا تو کنجوسی کی وجہ سے ہمیشہ مصیبت میں رہے گی یا ذرا سی مدت میں سارا مال خرچ کرکے عاجز ہو کر بیٹھ رہے گی، پھر قرضوں پر نظر جائے گی قرضے چڑھ جائیں گے تو ان کی ادائیگی کا کوئی راستہ نہ ہوگا، غیر قوموں کی طرف تکیں گے ان سے سودی قرضے لیں گے سود در سود چڑھتا چلا جائے گا جیسا کہ دنیا میں ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ فائدہ : آیت بالا سے پورا مال خرچ کردینے کی ممانعت معلوم ہوئی یہ عام افراد کے لیے ہے جو خرچ کرکے پچھتانے لگیں اور پریشان ہوں اور پھر دوسروں سے مانگنے لگیں حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ اہل توکل جو خرچ کرکے نہ گھبرائیں نہ تلملائیں اور اللہ تعالیٰ پر ان کا پورا پورا بھروسہ ہو ایسے حضرات کو اجازت ہے کہ اپنا پورا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کردیں۔ حضرت صدیق اکبر ؓ کا واقعہ تو مشہور ہی ہے کہ ایک مرتبہ جب رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ سارا ہی مال لے آئے آپ نے سوال فرمایا کہ تم نے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا تو حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے عرض کیا ابقیت اللّٰہ و رسولہ (کہ میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو باقی رکھا) (مشکوٰۃ المصابیح ص 556 از ترمذی و ابو داؤد) آپ نے ان کا سارا مال قبول فرما لیا، اور بھی اس طرح دیگر اکابر کے واقعات ہیں، علامہ قرطبی ج 1 ص 250 فرماتے ہیں کہ وکان کثیر من الصحابۃ ینفقون فی سبیل اللّٰہ جمیع اموالھم، فلم یعنفھم النبی ﷺ ولم ینکر علیھم لصحۃ یقینھم وشدۃ بصائرھم، وانما نھی اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ عن الافراط فی الانفاق، واخراج ماحوتہ یداہ من المال من خیف علیہ الحسرۃ علی ماخرج من یدہ فاما من وثق بموعود اللّٰہ عزوجل وجزیل ثوابہ فیما انفقہ فغیر مراد بالایۃ واللّٰہ اعلم۔
Top