Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 78
وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَۙ
وَاِنْ : اور تحقیق كَانَ : تھے اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ : ایکہ (بن) والے (قوم شعیب) لَظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور بیشک بن والے بھی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے
آگے کا مضمون۔ آیات 78 تا 96: آگے رسولوں کی تکذیب کرنے والی بعض دوسری قوموں کا اجمالی تذکرہ اور ان کی اس تکذیب کے انجام کا بیان ہے پھر نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ تم اپنی دعوت حق پر جمے رہو، اگر تمہاری قوم کے لوگوں نے بھی اپنی پیش رو قوموں ہی کی تقلید کی تو ان کا بھی وہی انجام ہونا ہے جو ان کا ہوا اور تم ان کے رویہ سے بددل نہ ہو بلکہ خوبصورتی سے درگزر کرو۔ انجام کار کی کامیابی تمہارا اور تمہارے ساتھیوں ہی کا حصہ ہے۔ آیات کی تلات کیجیے۔ وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الأيْكَةِ لَظَالِمِينَ۔ " اصحٰب الایکۃ " سے مراد۔ " اصحب الایکۃ " سے مراد اصحاب مدین ہیں جن کی طرف حضرت شعیب ؑ رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ " ایکہ " کے معنی جھاڑی اور ربن کے ہیں۔ مدین کے پاس ایک بہت بڑا بن بھی تھا اس وجہ سے یہ لوگ اس نام سے بھی معروف تھے۔ اس سورة میں چونکہ قریش کو عذاب الٰہی کے ان زمینی نشانات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جن پر سے ان کو اپنے تجارتی سفروں میں برابر گزرنے کے مواقع معلتے تھے اس وجہ سے معذب قوموں کا ذکر مقامات اور ارضی نشانات کی نسبت کے ساتھ ہی آیا ہے۔ " ظالمین " سے یہاں ان کے شرک و کفر اور صراط مستقیم سے انحراف کی طرف اشار ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ جو لوگ اس ظلم میں مبتلا ہوتے ہیں وہ خدا کے سب سے بڑے حق (توحید) سے بھی انکار کرتے ہیں اور خود اپنی جانوں پر بھی ظلم ڈھاتے ہیں اور بالآخر اس انجام سے دوچار ہوتے ہیں جو اس ظلم کی پاداش میں قدرت کی طرف سے ان کے لیے ظاہر ہوتا ہے۔
Top