Dure-Mansoor - Al-Hijr : 78
وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْكَةِ لَظٰلِمِیْنَۙ
وَاِنْ : اور تحقیق كَانَ : تھے اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ : ایکہ (بن) والے (قوم شعیب) لَظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور بلاشبہ ایکہ والے ظلم کرنے والوں میں سے تھے
1:۔ امام ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مدین اور ایکہ والے دو امتیں تھیں ان کی طرف اللہ نے شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا۔ 2:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وان کان اصحب الایکۃ “ سے شعیب (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے (اور) الایکۃ سے مراد جھاڑیوں اور درختوں والے اس علاقے میں گھنے درخت، وہ لوگ تھے جس میں وہ رہتے تھے۔ 3:۔ ابن جریر نے خصیف (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصحب الایکۃ “ سے مراد ہیں درخت گرمی کے موسم میں تر پھل کھاتے تھے اور سردی کے موسم میں خشک پھل کھاتے تھے۔ 4:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” وان کان اصحب الایکۃ لظلمین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ وہ لوگ گھنے جنگلوں میں رہتے تھے اور ان کے عام درخت دائمی تھے اور ان کے رسول شعیب (علیہ السلام) تھے اور ان کو اصحاب ایکہ اور مدین والوں کی طرف بھیجا گیا یہ دو امتیں تھیں اور ان کو دو مختلف قسم کے عذاب دیئے گئے اور مدین والوں کو سخت آواز نے پکڑ لیا اور ایکہ والے ان پر سات دنوں تک گرمی مسلط کی گئی نہ کوئی سایہ اس محفوظ کرتا تھا اور نہ کوئی تدبیر کام دیتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک بادل بھیجا اس میں وہ آرام کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ان پر عذاب بنا دیا ان پر آگ برسائی گئی جو ان سب کو کھاگئی اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” عذاب یوم الظلۃ، انہ کان عذاب یوم عظیم “۔ 5:۔ ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصحب الایکۃ “ سے مراد ہے جنگل والے۔ 6:۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصحب الایکۃ “ سے مراد ہے جنگل والے۔ 7:۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصحب الایکۃ “ سے مراد ہے لپٹے ہوئے درخت۔ 8:۔ ابن منذرنے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اصحب الایکۃ “ سے مراد ہے مدین والے اور ” الایکۃ “ سے مراد ہے لپٹے ہوئے درخت (یعنی گھنے درخت) 9:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الایکۃ “ سے مراد ہے درختوں کا جھنڈ۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ مدین والے تین قسم کا عذاب دیئے گئے زلزلے نے ان کو ان کے گھروں میں پکڑا یہاں تک کہ وہ ان (گھروں) سے باہر نکلے تو ان کو سخت گھبراہٹ پہنچی تو وہ جدا جدا ہوگئے اور وہ گھروں میں داخل نہ ہوتے تھے کہ کہیں چھتیں گر نہ جائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سایہ بھیج دیا اس کے نیچے ایک آدمی داخل ہوا اور کہا آج کے دن کی طرح میں کسی سائے کو اس طرح پاکیزہ اور ٹھنڈا نہیں دیکھا اے لوگوں آجاؤ سب لوگ سائے کے نیچے داخل ہوگئے ان پرا یک سخت قسم آواز آئی اور وہ سب مرگئے۔ 11:۔ ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانھما لبامام مبین “ (یعنی راستہ پر) واقع ہے۔ 12:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لبامام مبین “ یعنی ظاہری راستے پر۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانھما لبامام مبین “ سے جاننے ہوئے راستے پر مراد ہے۔ 14:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانھما لبامام مبین “ یعنی واضح راستے پر۔ 15:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لبامام مبین “ سے مراد ہے یعنی واضح راستے پر۔ 16:۔ عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اصحب الحجر “ سے مراد ہے وادی والے۔ 17:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اصحب الحجر “ ثمود تھے جو صالح کی قوم تھی۔ 18۔ امام بخاری، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (آیت ) ” اصحب الحجر “ کے لئے فرمایا کہ اس قوم پر داخل نہ ہو مگر یہ کہ تم روتے ہوئے ہو اور تم رونے والے نہ ہو تو ان پر (یعنی ان کے گھروں میں) داخل نہ ہو ایسا نہ ہو کہ تم کو ان کی طرح کا عذاب پہنچ جائے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر قوم ثمود کے کنووں پر گزر : 19:۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ غزوہ تبوک کے سال رسول اللہ ﷺ حجر کے مقام پر قوم ثمود کے گھروں کے پاس اترے لوگوں نے ان کنووں سے پانی لیا جن سے قوم ثمود پیتے تھے انہوں اس سے آٹا گوندھا اور ہانڈیوں کو گوشت کے ساتھ ( آگ پر) رکھا آپ نے ان کو ہانڈیوں کو بہا دینے کا حکم فرمایا اور آٹا اونٹوں کو کھلانے کا حکم فرمایا پھر آپ نے صحابہ کے ساتھ آگے چلے یہاں تک کہ ایک کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالا جہاں سے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور آپ نے ان لوگوں کو منع فرمایا کہ اس قوم کے مکانات کے پاس جائیں جن کو عذاب دیا گیا اور فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ تم کو ان کی طرح عذاب نہ پہنچ جائے اس لئے ان پر (یعنی ان کے رہنے والی جگہ پر) داخل نہ ہو۔ 20:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب لوگ (یعنی صحابہ کرام ؓ قوم ثمود کی زمین حجر میں اترے ان کے کنووں سے انہوں نے پانی بھرا اور اس سے آٹا گوندھا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ پانی کو بہا دو جو تم نے لیا اور آٹا اونٹوں کو کھلا دو اور ان کو حکم دیا کہ وہ اس کنویں سے پانی لیں جہاں سے صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔ 21:۔ ابن مردویہ نے سبرہ بن معبد (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے حجر کے مقام پر اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کی جس نے ان کے کنووں سے پانی بھرا اس کو انڈیل دے پھر فرمایا ان میں سے بعض نے آٹا گوندھا اور ان میں سے بعض نے حیس (حلوا) تیار کیا (سب کو پھینک دو ) 22:۔ ابن مردویہ اور ابن النجار نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فاصفح الصفح الجمیل “ سے مراد ہے بغیر عتاب کے راضی ہونا۔ 23:۔ امام بیہقی (رح) نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فاصفح الصفح الجمیل “ سے مراد ہے بغیر عتاب کے راضی ہونا۔ 24:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا (آیت ) ” فاصفح الصفح الجمیل “ یہ خوبی کے ساتھ درگزر کرنا اور یہ حکم قتال سے پہلے کا ہے۔ 25:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحتہ الکتاب۔ 26:۔ فریابی، سعید بن ابن الضریس، ابن جریر، ابن منذر ابن ابی حاتم، دارقطنی، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں کئی طرق سے علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب۔ 27:۔ ابن الضریس، ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب اور (آیت ) ” والقرآن العظیم “ سے مراد ہے سارا قرآن۔ 28:۔ ابن جریر، ابن منذر، طبرانی، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے سنن میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ” السبع المثانی “ کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب اللہ تعالیٰ نے اس کو محمد ﷺ کی امت کے لئے علیحدہ رکھا ہوا ہے اس کو ام الکتاب میں بلند کیا ہوا تھا اور امت محمدیہ کے لئے اس کو ذخیرہ کر رکھا تھا یہاں تک امت محمدیہ کو یہ صورت عطا ہوئی اس سے پہلے کسی کو یہ صورت عطا نہیں فرمائی پوچھا گیا کہ سورة فاتحہ کی ساتویں آیت کون سی ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ابن الضریس نے سعیدبن جبیر سے اسی طرح روایت کیا۔ 29:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ یعنی یہ سورة فاتحہ تمہارے نبی کریم ﷺ کے لئے ذخیرہ کی گئی ہے اس کے علاوہ کسی نبی کے ذخیرہ نہیں کی گئی۔ سبع مثانی سے کیا مراد ہے۔ 30:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد سورة فاتحہ ہے اور یہ ہر نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ 31:۔ ابن الضریس ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے روایت کیا کہ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ فاتحۃ الکتاب ہے۔ 32:۔ ابن جریر نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ الحمد للہ رب العلمین ہے۔ 33:۔ ابن الضریس یحی بن یعمر اور ابو فاختہ رحمہما اللہ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی والقران العظیم “ سے مراد فاتحۃ الکتاب ہے۔ 34:۔ ابن الضریس نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد سورة فاتحہ ہے۔ ابن جریر نے حسن (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 35:۔ ابن الضریس اور ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب جو فرض اور نفل نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے۔ 36:۔ ابن الضریس نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب جو ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے۔ 37:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں ربیع کے طریق سے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب کی سات آیتیں اور اس کو ” المثانی “ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ باربار پڑھی جاتی ہیں جب بھی آپ قرآن پڑھتے تو اس کی اس کی تلاوت فرماتے ربیع (رح) سے پوچھا گیا کہ وہ لوگ اس کو ” السبع الطول “ کہتے ہیں انہوں نے فرمایا یہ آیت نازل ہوئی جبکہ طول سورتوں میں سے کچھ بھی نازل نہ ہوا تھا۔ 38:۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہیں سات لمبی سورتیں۔ 39:۔ فریابی، ا بوداود، نسائی، ابن جریر ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مردویہ، حاکم (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولقد اتینک سبعا من المثانی “ سے مراد ہیں سات لمبی سورتیں ان کو کسی کو نہیں دیا گیا مگر نبی کریم ﷺ کو اور ان میں سے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو دی گئی تھیں۔ 40:۔ بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو لمبی سورتیں دی گئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو چھ دی گئیں جب انہوں نے تختیاں (نیچے) ڈالیں تو وہ اٹھالیں گئیں اور چار باقی رہ گئیں۔ 41:۔ دارمی اور ابن مردویہ نے ابی بن کعبؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب ہی (آیت ) ” سبعا من المثانی “ ہے 42:۔ ابن ضریس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد سات سورتیں ہیں۔ 43:۔ سعید بن منصور، ابن ضریس، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہیں سات لمبی سورتیں بقرہ، آل عمران، نساء مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ابن جبیر (رح) سے پوچھا گیا کہ ” المثانی “ کیوں کہا جاتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا اس میں دہرایا جاتا ہے قضا کو اور قصص کو۔ 44:۔ حاکم اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے (سات سورتیں مراد ہیں) بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور کہف۔ 45:۔ ابن ابی حاتم نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ ” المثانی “ سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد دو سو سے کچھ کم وبیش ہیں اور وہ یہ ہیں بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف، برأۃ اور انفال ایک ہی سورتیں ہیں۔ 46:۔ ابن جریر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور بیہقی نے سعید بن جبیر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہیں سات لمبی سورتیں (سعید ابن جبیر ؓ فرماتے ہیں) میں عرض کیا ” المثانی “ نام کیوں رکھا گیا ؟ فرمایا اس میں خبروں کو مثالوں کو اور عبرتوں کا بار بار ذکر ہے۔ 47:۔ ابن مردویہ نے سعید بن جبیر ؓ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہے فاتحۃ الکتاب اور السبع الطول بھی ان میں ہیں۔ 48:۔ سعید بن منصور ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے زیاد بن ابی مریم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہے کہ آپ کو سات دوسری چیزیں اور بھی عطا کی گئیں حکم کرنا، روکنا، خوشخبری دینا، ڈرانا، مثالیں بیان کرنا، نعمتوں کا شمار کرنا، پہلی قوموں کی خبریں پڑھنا۔ 49:۔ ابن ابی شیبہ ابن جریر اور ابن منذر نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ قرآن سارے کا سارا مثانی ہے۔ 50:۔ آدم بن ابی ایاس، ابن ابی شیبہ، ابن منذر اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” سبعا من المثانی “ سے مراد ہے پہلی سات لمبی سورتیں اور ” والقرآن العظیم “ یعنی سارا قرآن۔ 51:۔ ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” المثانی “ سے مراد ہے قرآن کا وہ حصہ جو بار بار پڑھا جاتا ہے کیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا (آیت) ” اللہ نزل حسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی “ (الزمر 23) 52:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” المثانی “ سے مراد ہے قرآن جس میں اللہ تعالیٰ ایک ہی قصہ باربار ذکر فرماتے ہیں۔
Top