Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 261
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ١ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ كَمَثَلِ : مانند حَبَّةٍ : ایک دانہ اَنْۢبَتَتْ : اگیں سَبْعَ : سات سَنَابِلَ : بالیں فِيْ : میں كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ : ہر بال مِّائَةُ : سو حَبَّةٍ : دانہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُضٰعِفُ : بڑھاتا ہے لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے، وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
آیت 261 اس آیت میں اللہ کے اس ارشاد کی تشریح ہوتی ہے : (من ذا الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضعفہ لہ اصعافاً کثیرۃ) (البقرہ :28/2) ” کون شخص ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو اللہ اس کے قرض کو اس کے لئے کئی گنا بڑھا دے گا یہاں فرمایا : (مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ) ” مثال ان لوگوں کی جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ “ یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کی خوشنودی کے کاموں میں۔ ان میں سب سے اہم جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے۔ : (کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ ماءۃ حبۃ) ” مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں، اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔ “ اس مثال کے ذریعے عمل کے ثواب میں اضافے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اضافہ بندہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ثواب میں اضافے کو اپنی بصیرت سے دیکھتا ہے۔ اس طرح آنکھوں دیکھی چیز کی وجہ سے ایمان کے ذریعے دیکھی ہوئی چیز پر یقین بڑھتا ہے۔ لہٰذا دل حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پوری آمادگی کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔ کیونکہ اسے اس قدر اضافے اور اس اللہ کے عظیم احسان کی امید ہوتی ہے۔ : (واللہ یضعف لمن یشآء) ” اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے۔ “ یعنی خرچ کرنے والے کے حال اور اس کے خلوص کے مطابق، یا خرچ کی کیفیت، منافع اور برمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ : (واللہ یضعف) ” اور اللہ بڑھا چڑھا کر دے۔ “ اس سے بھی زیادہ (لمن یشآء) ” جسے چاہے “ یعنی بےحساب اجر وثواب عنایت فرمائے۔ (واللہ واسع) ” اور اللہ کشادگی والا ہے۔ “ اس کا فضل وسیع ہے، اس کی عطا بےحساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔ لہٰذا خرچ کرنے والے کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ شاید کئی گنا بڑھا کردینے کا ذکر مبالغے کے طور پر کیا گیا ہے۔ اللہ کے لئے تو کوئی انعام بھی مشکل نہیں۔ بیشمار عطا کے باوجود اسے کمی نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ : (علیم) ” وہ علیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے ثواب کا مستحق ہے اور کون نہیں۔ لہٰذا وہ اضافہ وہیں کرتا ہے جہاں اس کا صحیح مقام ہو، کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے اور حکمت بھی۔
Top