Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 17
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُهُمْ : وہ انہیں جمع کریگا وَمَا : اور جنہیں يَعْبُدُوْنَ : وہ پرستش کرتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا ءَ اَنْتُمْ : کیا تم اَضْلَلْتُمْ : تم نے گمراہ کیا عِبَادِيْ : میرے بندے هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں۔ ان اَمْ هُمْ : یا وہ ضَلُّوا : بھٹک گئے السَّبِيْلَ : راستہ
اور اس دن کا خیال کرو جس دن (اللہ تعالیٰ ) ان لوگوں کو اور جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اکٹھا کرے گا، پھر ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے
وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ ئَ اَنْـتُمْ اَضْلَلْـتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤْ لَآئِ اَمْ ھُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ۔ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ مَاکَانَ یَنْبَغِیْ لَنَـآ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَـآئَ وَلٰـکِنْ مَّتَّعْتَھُمْ وَاٰبَـآئَ ھُمْ حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَ ج وَکَانُوْا قُوْمًا م بُوْرًا۔ الفرقان : 17، 18) (اور اس دن کا خیال کرو جس دن (اللہ تعالیٰ ) ان لوگوں کو اور جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اکٹھا کرے گا، پھر ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے۔ وہ جواب دیں گے پاک ہے آپ کی ذات، ہمیں یہ بات زیب نہ دیتی تھی کہ ہم آپ کے سوا دوسروں کو کارساز بنائیں مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا سے بہرہ مند کیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور ہلاک ہونے والے بنے۔ ) آخرت میں انبیاء و صالحین کا اپنے پرستاروں سے اعلانِ براء ت قریشِ مکہ اور دیگر اہل عرب کی گمراہی اور اس کو باقی رکھنے کے لیے آنحضرت ﷺ کی دعوت کی اندھی مخالفت جس طرح قیامت کے انکار کے باعث تھی اسی طرح اس کا ایک سبب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختلف قسم کا شرک بھی تھا۔ کہیں اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا گیا تھا اور کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات میں۔ اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے بہت سارے حقوق انھیں تفویض کردیئے گئے تھے۔ شرک کی تمام اقسام کی تردید تو کئی مواقع پر گزر چکی ہے یہاں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ جب یہ لوگ اپنے انکار و تمرد اور شرک کے باعث جہنم میں ڈالے جائیں گے تو جہاں انھیں سخت سے سخت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا وہیں انھیں ایک اور بھی رسوا کن اور اذیت ناک صورتحال سے واسطہ پڑے گا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ میدانِ حشر میں جب ان کو جمع کرے گا تو ان کے ساتھ ان تمام قوتوں کو بھی جمع ہونے کا حکم دے گا جن کی یہ پوجا کرتے تھے۔ اور ان میں وہ تمام معبود شریک ہوں گے جن کا تعلق فرشتوں، جنات، مظاہرفطرت اور اجرامِ فلکی سے ہے اور وہ بھی شامل ہوں گے جنھیں مشرکین نے اپنے ہاتھوں سے تراشا تھا۔ چاہے اس کے پس پردہ انسانی شخصیات ہوں یا لوگوں کی مزعومہ اور مفروضہ قوتیں۔ ان کے تمام بت بھی ان کے ساتھ میدانِ حشر میں جمع کردیئے جائیں گے۔ مایعبدون … میں مَا کے بارے میں بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ یہ غیرذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مَن ذوی العقول کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں ما سے مراد صرف بےجان پتھر ہیں، زندہ شخصیات نہیں۔ لیکن یہ تصور صحیح نہیں۔ یہ درست ہے کہ مَا اور منکے استعمال میں عموماً اس کا لحاظ کیا جاتا ہے، لیکن یہ دونوں ان معنوں کے لیے مخصوص نہیں۔ بسا اوقات مَا ذوی العقول کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اگر کسی صاحب عقل مخلوق کا ذکر تحقیر کے طور پر کیا جائے تو پھر اس کے لیے مَا کا استعمال سب کے نزدیک نہ صرف جائز ہے بلکہ فصاحت کا تقاضا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں بھی صحیح بات یہی ہے کہ مشرکین نے جن جن کو بھی اپنی بندگی اور عبادت کا مستحق سمجھا ان کے سامنے سر جھکائے، قربانیاں دیں، ان سے استمداد کی، ان سے پناہ مانگی اور یہ یقین رکھا کہ اگر قیامت آہی گئی تو ہمارے یہ معبود اس دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتماد اور بھروسے کی تردید کے لیے فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں ان سب کو جمع کرے گا۔ جہاں تک بتوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں تو دوسری جگہ فرمایا گیا انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم ” بیشک تم اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ “ سب کے نزدیک اس سے مراد بت ہیں انھیں قیامت کے دن ان کے پوجا کرنے والے کے ساتھ جہنم میں پھینکا جائے گا اور یہ جہنم کی آگ کے لیے ایندھن ثابت ہوں گے۔ رہے دوسرے لوگ جن میں انبیائے کرام بھی شامل ہیں اور اولیائے عظام، فرشتے اور صالحین بھی۔ ان سے پروردگار پوچھے گا کہ تم نے ان لوگوں کو گمراہ کیا تھا یا خود ہی یہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے۔ کیونکہ مشرکین کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں ہمیں اس راستے پر ان بزرگوں اور عظیم شخصیتوں نے ڈالا آج جن کی ہم پوجا کررہے ہیں۔ تو وہ جواب میں یہ کہیں گے کہ الٰہ العالمین ہماری تو یہ مجال بھی نہ تھی یا ہمیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ہم تیرے سوا کسی اور کو اپنا ولی یا کارساز بنا لیتے، تو دوسروں کو یہ کہنا کہ وہ ہماری بندگی کریں، یہ کیسے ممکن تھا۔ اسی مضمون کو سورة سبا کی آیات 40 اور 41 میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ” کہ جس روز اللہ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی بندگی کررہے ہیں، وہ کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ ان سے۔ یہ لوگ تو جنوں یعنی شیاطین کی بندگی کررہے تھے، ان میں سے اکثر انھیں کے مومن تھے۔ “ ممکن ہے بعض لوگوں کو یہ گمان ہو کہ ہوسکتا ہے فرشتوں یا جنات کو لوگوں کے شرک اور پوجا پاٹ کی وجہ سے پروردگار قیامت کے دن اپنی عدالت میں طلب فرما لیں۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انبیائے کرام جن کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی قدر و منزلت سے نوازا ہے انھیں ان کی امتوں کی زیادتیوں کے باعث اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سورة المائدہ کے آخری رکوع میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عیسائیوں کے غلط عقائد اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلط تصورات کے حوالے سے جب عیسائیوں سے جواب طلبی ہوگی تو ساتھ ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی طلب کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ کیا آپ نے ان لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو، تو وہ نہایت عاجزی سے جواب میں کہیں گے ماقلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدوا اللہ ربی و ربکم ” میں نے ان سے بس وہی کچھ کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ “ کفار کی گمراہی کا اصل سبب انبیائے کرام اور صلحائے عظام اپنی براءت کا اظہار کرنے کے بعد عرض کریں گے کہ ان کو کسی نے گمراہی اور برگشتگی کے راستے پر نہیں ڈالا بلکہ آپ نے معیشتِ دنیا کی جو فراوانی ان کو اور ان کے آبائواجداد کو بخشی اور یہ پشتوں تک دولت میں کھیلتے رہے اور وسائلِ رزق پر بلاشرکتِ غیرے ان کا قبضہ رہا۔ اس سے ان میں یہ تصور پیدا ہوا کہ امارت و ثروت ہمیشہ سے ہمارے گھر کی لونڈی ہے اور ہم اور ہماری اولاد ہمیشہ اسی حال میں زندگی گزاریں گے۔ ہماری یہ حالت ہماری شناخت اور ہمارا لازمہ ہے جو ہم سے کبھی الگ نہیں ہوگا۔ اس تصور نے انھیں دنیا اور دولت دنیا کے ساتھ اس قدر گہری وابستگی پیدا کردی کہ وہ آخرت کا تصور کھو بیٹھے۔ اگر کسی نے انھیں آخرت کی طرف بلایا تو انھوں نے محض اسے واہمہ سمجھا اور آخرت سے متعلق اگر کچھ تصورات ان کے معاشرے میں موجود تھے تو وہ یکسر انھیں بھول گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے اخلاقی قدریں پامال ہوئیں پھر رفتہ رفتہ انسانی قدریں بھی دم توڑ گئیں۔ انسانی رشتے جو حقوق و فرائض کے تصور سے باقی رہتے ہیں وہ آخرت کا تصور ختم ہوجانے کے باعث اپنا وجود کھو بیٹھے جس کے نتیجے میں ایک ایک رشتہ ٹوٹتا چلا گیا۔ اب یہ لوگ بظاہر انسان تھے لیکن حقیقت میں بہائم کے انبوہ تھے جو انسانی آبادیوں میں حیوانوں کی طرح رہ رہے تھے۔ آخر وہ وقت آیا کہ وہ ایک ہلاک ہونے والی قوم بن گئے۔ بُور… واحد جمع مذکر اور مونث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی ہیں شور زمین اور فاسد و ناکارہ آدمی۔ جب یہ قوم کی صفت کے طور پر آتا ہے تو پھر اس کا مفہوم ہلاک ہونے والی قوم ہوتا ہے۔
Top