Baseerat-e-Quran - Al-Furqaan : 17
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ هٰۤؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَؕ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُهُمْ : وہ انہیں جمع کریگا وَمَا : اور جنہیں يَعْبُدُوْنَ : وہ پرستش کرتے ہیں مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے فَيَقُوْلُ : تو وہ کہے گا ءَ اَنْتُمْ : کیا تم اَضْلَلْتُمْ : تم نے گمراہ کیا عِبَادِيْ : میرے بندے هٰٓؤُلَآءِ : یہ ہیں۔ ان اَمْ هُمْ : یا وہ ضَلُّوا : بھٹک گئے السَّبِيْلَ : راستہ
اور جس دن ( آپ کا رب) ان کو اکٹھا کرے گا اور جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے۔ اکٹھا کرے گا تو پھر اللہ ان سے پوچھے گا کیا تم میرے بندوں کو بہکایا تھا یا وہ خود ہی رستے بےبھٹک گئے تھے ؟
لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 20 : (اضللتم) تم نے گمراہ کیا تھا ‘(ضلو السبیل) راستے سے بھٹک گئے ‘(ماینبغی) مناسب نہیں ہے ‘(متعت) تمہیں خوش حالی دی گئی ‘(نسوا) وہ بھول گئے ‘(بور) تباہ برباد ہونے والے ‘ (نذق) ہم چکھائیں گے ‘(فتنۃ) آزمائش ۔ جانچ۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 20 : ان آیات میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں ایک تو میدان حشر میں وہ سوال کہ یہ لوگ جو بےحقیقت چیزوں کو اپنا معبود بنائے ہوئے تھے اس پر ان کو کس نے مجبور کیا تھا ؟ دوسرا یہ مسئلہ کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) جو انسان ہوتے ہیں مگر انسانیت ناز کرتی ہے کیا وہ انسانی ضروریات سے بےنیا تھے ؟ جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کی بساط الٹ دیں گے اور تمام لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں لاکر کھڑا کردیں گے تو اس وقت کفار و مشرکین جن کے سامنے ان کا بھیانک انجام نظر آرہا ہوگا۔ وہ گھبراہٹ میں مجنونا نہ حرکتوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ تمام کفار و مشرکین کو اور ان لوگوں کو جمع فرمائیں گے جو ایک اللہ کی عبادت و بندگی چھوڑ کر غیر اللہ کو اپنا معبود بنائے بیٹھے تھے اور ان کو اس بات پر ناز تھا کہ یہ غیر اللہ ان کے کام آئیں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب سیپہلے ان جھوٹے معبودوں سے پوچھیں گے کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے کھڑے ہیں کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ ایک اللہ کو چھوڑ کر تمہاری عبادت و بندگیکریں یا یہ لوگ خود ہی تمہاری بندگی کرنے لگے تھے اور تمہارے دھوکے میں آگئے تھے ؟ ۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہوگا۔ کہ اے اللہ آپ کی ذات ہر طرح کے عیب سے پاک ہے ‘ آپ کی بڑی شان ہے ‘ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم تو بےبس اور مجبور تھے۔ انہوں نے خود ہمیں اپنے ہاتھوں سے گھڑ کر ہماری عبادت و بندگی شروع کردی تھی۔ ہماری کیا مجال تھی کہ ہم انہیں اپنی عبادت و بندگی پر مجبور کرسکتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دولت اور راحت و آرام کی دیوانگی میں آپ کی بندگی چھوڑ کر ہمیں اپنا معبود بنا لیا تھا۔ یہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ کے بھرے دربار میں جب یہ جھوٹے معبود ان کو ٹکا سے جواب دیں گیا سہ جواب دیں گے اس وقت حق تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ اب تم کیا کہتے ہو ؟ وہ معبود جنہیں اپنا سہارا اور سب کچھ سمجھ رہے تھے وہ تو تمہاری عبادت و بندگی کو حماقت و جہالت اور نادانی قرار دے رہے ہیں۔ ارشاد ہوگا۔ تمہارا اعمال نامہ تمہارے سامنے ہے اب اسی کے مطابق سارے فیصلے کئے جائیں گے اب تمہارا کوئی حامی اور مدد گار نہیں ہوگا۔ دوسرے مسئلے کا اللہ نے یہ جواب دیا ہے کہ اللہ نے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انسانوں ہی کو نبی اور رسول بناکر بھیجا ہے کیونکہ انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لئے انسان ہی ایک نمونہ عمل بن سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ‘ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ‘ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھیجا جو سب کے سب انسان ہی تھے جو کھانا بھی کھاتے تھے ‘ بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے اور بیوی بچے بھی رکھتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی طرف وحی کی جاتی تھی جو ان کا اتنا بڑا امتیاز اور عظمت ہے کہ اس کے سامنے بہت سی عظمتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی فرشتے یا مال دار شخص کو نبی بنا کر بھیجتے جو زبردستی لوگوں پر رعب جما دھونس اور دھاندلی سے اپنی بات منواتا تو یہ بات اللہ کی مصلحت کے خلاف ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ہر شخص اپنی عقل و فہم استعمال کرکے ایمان کا راستہ منتخب کرے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت سنور جائے اور ابدی راحتیں نصیب ہوجائیں۔
Top