Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور ان میں ان پڑھ بھی ہیں جو کتاب الہٰی کا کوئی علم نہیں رکھتے، بجز جھوٹی آرزوئوں کے اور یہ صرف اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں۔
وَمِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِیَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ ۔ (البقرۃ : 78) (اور ان میں ان پڑھ بھی ہیں جو کتاب الہٰی کا کوئی علم نہیں رکھتے، بجز جھوٹی آرزوئوں کے اور یہ صرف اٹکل کے تیر تکے چلاتے ہیں) امی سے مراد یہاں یہود کے تیسرے گروہ کا ذکر ہے۔ جنھیں عوام کالانعام کہا جاتا ہے۔ امیون ” امی “ کی جمع ہے۔ امی اس شخص کو کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنانہ جانتاہو اور مکتبی تعلیم سے بالکل ناواقف ہو۔ جسے ہم عام طور پر جاہل کہہ دیتے ہیں۔ اس سے پہلے علما اور عام تعلیم یافتہ لوگوں کا تذکرہ ہوچکا اور مسلمانوں کو ان کے کرتوت دکھائے گئے تاکہ مسلمان یہ سمجھ سکیں کہ ایسے لوگوں سے اسلام قبول کرنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ جہلاء کا دین صرف آرزوئیں ہیں لیکن جہلا میں چونکہ اس طرح کی باتیں نہیں ہوتیں وہ اپنی جہالت کے باعث وہ جرائم تو نہیں کرسکتے جن کے لیے علم درکارہوتا ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہوسکتا تھا کہ مسلمان جہلائے یہود سے ایمان لانے کی امیدیں وابستہ کرلیتے۔ اس لیے ان جہلا کے بارے میں بھی بتایا جارہا ہے کہ اسلام قبول کرنے کی امید ان سے بھی مت رکھو اس لیے کہ اسلام تو ایک ضابطہ حیات ہے جو زندگی گزارنے کے اصول دیتا ہے اور پھر ان اصولوں پر پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ کسی وابستگی کو ایمان و عمل کے بغیر اہمیت کے قابل نہیں سمجھتا۔ تو ایک ایسا دین جس میں ذمہ داریاں ہوں ان لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا جو ذمہ داریوں کو قبول کرنے کا تصور بھی نہ رکھتے ہوں۔ البتہ آرزوئیں ان کی اس طرح کی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے یہاں آخرت میں بخشش ہے تو صرف انہی کے لیے اور جنت میں جائیں گے تو صرف وہی جائیں گے۔ ایسے لوگوں سے مسلمان یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اسلام جیسے دین کو قبول کرلیں گے۔ قرآن کریم نے یہاں امانی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو امنیہ کی جمع ہے۔ جس کے معنی ” آرزو، تمنا اور خواہش “ کے ہیں۔ یعنی دین کے بارے میں ان کا تصوریہ ہے کہ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو یہودی یا نصرانی کہلائیں۔ بس یہ نسبت ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ قرآن کریم نے ان کی چند آرزوئوں کا مختلف مواقع پر ذکر بھی کیا ہے۔ ایک تو ابھی ایک آیت کے بعد ہی آرہی ہے اور ایک کا ذکر آگے چل کر کیا گیا ہے۔ اس کا میں یہاں ذکر کردیتا ہوں۔ وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ہودا او نصاریٰ تلک امانیہھم ” اور وہ کہتے ہیں کہ جنت میں نہیں جائیں گے مگر یہودی اور نصرانی یہ ان کی آرزئویں ہیں “۔ یعنی وہ جنت کو یہودی اور نصرانی کے لیے وقف سمجھتے ہیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو انہی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ ان کے سوا کسی اور کے جنت میں جانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے تھے : وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی نَحْنُ اَبْنَائُ اللّٰہِ وَاَحِبَّائُ ہ ” اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں “۔ ظاہر ہے جنت اللہ تعالیٰ اپنے بیٹوں اور چہیتوں ہی کو دیں گے۔ دوسرے کسی مذہب کے ماننے والے کا اس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ اندازہ فرمائیے کہ جو لوگ اس قسم کی آرزوئوں کے حوالے سے جی رہے ہوں اور اس قسم کے اوہام میں مبتلا ہوں اور اس طرح کے سہانے خواب ان کا دین ہوں اور وہ چند رسوم کے سوا دین کی کوئی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے کیسے تیار ہوسکتے ہیں ؟ ان کی زندگی کا دارومدار چونکہ تمام تر ظن و گمان پر ہے اس لیے علم کی کوئی بات ان کے یہاں بار نہیں پاسکتی اور قرآن کریم تو سرتاسر علم ہے جو حقیقت پسندی کا درس دیتا ہے اور ایمان وعمل کے راستے سے اللہ کے ساتھ جوڑتا ہے ایک ایسی کتاب اور ایک ایسا دین ان کے لیے کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے ؟ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ وہ کیسے جاہل لوگ تھے جنھوں نے چندمصنوعی خواہشوں اور آرزوئوں کو اپنا مذہب بنا رکھا تھا۔ لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ زوال پذیر قوموں کے یہی طور اطوار ہوتے ہیں۔ امت مسلمہ کی حالت کا جائزہ لے کر دیکھ لیجئے۔ ایک بڑے طبقے نے محرم کے دس دنوں کی مصنوعی مصروفیتوں کو اپنے لیے نجات کی ضمانت سمجھ لیا ہے۔ اور وہ باقی سارا سال مذہب کی پابندیوں سے آزاد رہتے ہیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو کسی بزرگ کا دامن گرفتہ ہونا اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور کتنے اللہ کے نام نہاد ایسے نیک بندے بھی ہیں جو لوگوں کو یہ کہہ کرمرید کرتے ہیں کہ تمہیں نمازیں پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں تمہارے ہر گناہ کی ذمہ داری ہمارے سر ہے۔ مرید سال بہ سال ایسے مشائخ کو نذرانے اور فتوحات دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جنت خرید لی اور ایسے لوگوں کی تعداد تو بیشمار ہے جو بعض راتوں کی عبادت اور بعض دنوں کے روزوں کو پوری زندگی کی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ اس امت مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے عظیم رسول کی زندگی کا روزنامچہ پوری طرح محفوظ ہے۔ اگر وہ دینی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے ہر جگہ امکانات میسر ہیں۔ ابھی تک اس امت میں خیر غالب ہے اور صالح علما کا ایک بڑاطبقہ موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں نے جو کچھ عرض کیا ہے حالت اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے تو پھر ہم اہل کتاب کی حالت پر تعجب کا اظہار کیوں کریں۔
Top