Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور (وہ وقت یاد کرو ! ) جب تم نے ایک شخص کو قتل کرڈالا تھا، پھر تم آپس میں اس باب میں جھگڑنے لگے اور اللہ ظاہر کرنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے
وَاِذْ قَتَلْتُْمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْھَاط وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ۔ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا ط کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰیلا وَیُرِیْکُمْ اٰیٰـتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ۔ (اور (وہ وقت یاد کرو ! ) جب تم نے ایک شخص کو قتل کرڈالا تھا، پھر تم آپس میں اس باب میں جھگڑنے لگے اور اللہ ظاہر کرنے والا تھا جسے تم چھپا رہے تھے تو ہم نے کہا : اس (میت) پر اس گائے کا کوئی ٹکڑا مارو، اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو) (البقرۃ : 72 تا 73) اس آیت کریمہ میں ادّٰرَئْ تُمکا لفظ آیا ہے۔ یہ درء سے ہے۔ درء کے معنی ” جھگڑنے کے بھی ہیں اور دفع کرنے کے بھی “۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دفع کرنے کے معنی میں ہی آیا ہے۔ مثلاً فَادْرَؤُاعَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ ۔ وَیُدْرَأُعَنھَاالعَذَاب۔ یَدْرَئُ وْنَ بِالحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃ اس آیت کریمہ میں ادّٰرَئْ تُم بروزنِ اِفَّاعَلتُم سے مراد آپس میں جھگڑنا اور ایک دوسرے پر الزام لگانا ہے۔ اس آیت کریمہ میں وہ اصل مقصد بیان کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ایک شخص قتل ہوگیا تھا اس کے قاتل کے بارے میں معلوم نہیں ہورہا تھا اور لوگ ایک دوسرے پر اس کے قتل کا الزام لگا رہے تھے معلوم ہوتا ہے یہ الزام تراشی فساد تک پہنچ رہی تھی۔ تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دعا کرنے پر اللہ نے حکم دیا کہ تم ایک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کی لاش کو مارو یعنی اسے چھوا دو ۔ مقتول زندہ ہو کر بتائے گا کہ قاتل کون ہے ؟ چناچہ اس گائے کو ذبح کرنے کے بعد ایسا ہی کیا گیا۔ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے بتایا کہ میرے چچا کے بیٹوں نے مجھے قتل کیا ہے۔ یہ بتانے کے بعد وہ مرگیا۔ اس طرح اس کے قتل کا معمہ تو حل ہوگیا اور قوم میں اس واقعہ کے نتیجے میں جو تفرقہ پیدا ہورہا تھا اس سے بچ گئی۔ لیکن دوسری آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو اور نشانیوں کے اصل مقصد کو سمجھو۔ اب ہمیں غور یہ کرنا چاہیے کہ یہاں کیا نشانیاں دکھائی گئی ہیں اور ہمیں ان سے کیا سبق لینا چاہیے۔ گہرے غور وفکر سے تو حسب توفیق بہت ساری باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں۔ لیکن معمولی غور وفکر سے بھی دو باتیں تو بالکل سامنے کی بات معلوم ہوتی ہیں۔ 1 پہلی بات یہ کہ بنی اسرائیل کو اس طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم ذرا غور کرو کہ گائے بھی باقی جانوروں کی طرح ایک جانور ہے۔ وہ اگر دودھ دیتی ہے تو کئی اور جانور بھی دودھ دیتے ہیں۔ اس کا اگر گوشت کھایا جاتا ہے تو کئی اور جانوروں کا گوشت اس سے ہر لحاظ سے بہتر بھی ہے۔ اس کا اگر چمڑہ کام آتا ہے تو یہی افادیت دوسرے جانوروں کے چمڑوں میں بھی ہے۔ تو پھر آخر کس وجہ سے تم گائے کی تقدیس کے قائل ہوگئے ہو ؟ اور تم انسان ہو کر اس معمولی درجہ کے جانور کے سامنے جھکتے ہو اور اس کا احترام بجا لاتے ہو، بظاہر تو گائے میں تقدیس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ البتہ ! صرف ایک بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مصر کے رہنے والے لوگ گائے کے بارے میں یہ سمجھتے تھے کہ اس کے اندر صفات الوہیت پائی جاتی ہیں اور وہ اپنی ذات میں بڑی قدرتوں کی حامل ہے۔ اگر تم بھی مصریوں کی طرح یہ سمجھتے ہو تو ذرا کھلی آنکھوں سے دیکھو کہ تمہارے چند آدمیوں نے اسے پکڑ کر زمین پر لٹایا پھر زبردستی چھری سے اس کا گلا کاٹ ڈالاپھر اس کے گوشت کے پارچے بناڈالے یعنی اس کا انگ انگ کاٹ ڈالا۔ اگر گائے میں واقعی کوئی قدرت اور طاقت تھی اور وہ غیر معمولی صفات کی حامل تھی تو اس نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے مدافعت کیوں نہ کی ؟ اگر وہ واقعی غیر معمولی تقدیس کی مالک ہے تو اس کے گلا کاٹ دینے پر تم پر کوئی عذاب کیوں نہیں آیا ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمہارے ہاتھ شل ہوجاتے، زمین پھٹ جاتی اور تم پر اللہ کا غضب بھڑکتا۔ لیکن اس میں سے کچھ بھی نہیں ہوا اور ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کیوں کہ گائے بچاری ایک جانور کے سوا کچھ نہیں۔ اسے انسانوں کی ضرورت اور خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انسانوں کی بےسمجھی ہے کہ وہ گائے میں نہ جانے کیا کیا فرض کربیٹھے ہیں۔ 2 دوسری بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اب جبکہ گائے کی لاش تمہارے سامنے پڑی ہے اور تم نے اس کا گلا کاٹ کر دیکھ لیا کہ اس کے اندر کوئی غیر معمولی قوت نہیں اور جو اس میں معمولی حیوانی مزاحمت تھی۔ ذبح ہونے کے بعدوہ بھی ختم ہوگئی۔ اب تو وہ ایک بےجان لاشہ ہے لیکن جب تم اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا اٹھاکر مقتول کے جسم سے مس کرتے ہو تو مقتول زندہ ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوت وقدرت نہ گائے میں ہے نہ تم میں، قوت اور قدرت کا مالک اصل میں وہ ہے جس کے حکم سے تم نے گائے کو ذبح کیا اور اسی کے حکم سے تم نے اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم سے مس کیا اور مقتول زندہ ہوگیا۔ جس خداوندِ زوالجلال کے حکم سے مردے زندہ ہوجائیں اور وہ اپنے حکم سے جس چیز کو چاہے زندگی کا سبب بنادے۔ عجیب بات ہے کہ تم اس کے سامنے جھکنے کی بجائے جانوروں کے سامنے جھکتے ہو اور اس سے ڈرنے کی بجائے جانوروں کے بارے میں عجیب و غریب تصورات اختیار کرتے ہو۔ قوت وقدرت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ اس کے حکم سے ہر چیز وجود میں آتی ہے اور اسی کے حکم سے ہر وجود فنا ہوتا ہے۔ اسی کے حکم سے بنی اسرائیل جیسی قوم کو جسے غلامی نے مار ڈالا تھا ازسر نو قومی زندگی ملی اور وہ ظالم جو اپنے آپ کو ربی الاعلیٰ کہتا تھا بحر قلزم کی موجوں کی نذر ہوگیا۔ اسی کے حکم سے بنی اسرائیل کے لیے بحر قلزم میں بارہ راستے بنے۔ اسی کے حکم سے اے بنی اسرائیل کے لوگو تمہیں من وسلویٰ مل رہا ہے اور بادل تمہارے سروں پر سایہ کررہے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ان ساری قدرتوں کے پیچھے تمہیں وہ قادر مطلق نظر نہیں آتا۔ لیکن گائے کی صورت میں تمہیں نہ جانے کیا دکھائی دیتا ہے کہ کبھی تم اس کی تقدیس کے قائل ہوجاتے ہو اور کبھی تم اس کی پرستش کرنے لگتے ہو۔ ہر مخلوق کی کمزوری اور بےبسی کا یقین کرلو، چاہے وہ مخلوق جانوروں کی شکل میں ہو یا تخت پر فائز حکمرانوں کی شکل میں یا مشیخیت اور تقدس کے دعوے داروں کی صورت میں اور صرف اللہ کی قدرت اور حکمرانی کا یقین پیدا کرو۔ چاہے اس کی دعوت دینے والے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے بےنوا درویش ہوں یا حضرت محمد ﷺ جیسے گدڑی پوش ہوں۔ وہ جب اپنی قدرت کا اظہار کرنے پر آتا ہے تو کبھی بحر قلزم کی منہ زورموجوں سے اظہار کرتا ہے اور کبھی غارثور کے دہانے پر مکڑی کے جالے سے کرتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ بحر قلزم کی موجیں تو خود اپنے اندر ایک قوت رکھتی ہیں۔ اس لیے خود انھوں نے فرعون کو غرق کردیا۔ لیکن مکڑی کا جالا تو سب سے کمزور چیز ہے لیکن عرب کے سورما تعاقب کرتے ہوئے جب غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے تو مکڑی کے جالے نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا تو مکڑی کے جالے کی بےبسی اللہ کی قدرت سے طاقت میں ڈھل گئی۔ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ خدائے لم یزل کسی چیز کا محتاج نہیں۔ ہر چیز اس کی محتاج ہے، کسی کی قوت اپنی قوت نہیں، ہر ایک کی قوت اسی کی عطا ہے۔ یہ بات اگر سمجھ میں آجائے جو بنی اسرائیل کو سمجھائی جارہی تھی تو آج بھی امت مسلمہ کی کایا پلٹ سکتی ہے اور وہ قوت کے اصل سرچشمہ سے اپنا تعلق جوڑ کر اپنی بےبسی کا مداوا کرسکتے ہیں۔
Top