Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
کہہ دیجیے ! ہر شخص اپنی روش پر کام کرتا ہے، پس تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر (گامزن) ہے۔
قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 84) (کہہ دیجیے ! ہر شخص اپنی روش پر کام کرتا ہے، پس تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ سیدھی راہ پر (گامزن) ہے۔ ) ہدایت قبول نہ کرنے والوں سے آخری بات کل : نکرہ ہے، لیکن بعض مواقع پر یہ معرفہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے معرفہ کے طور پر استعمال کیا گیا، یعنی مراد اس سے وہی لوگ ہیں جن کی طرف قرآن کریم کا روئے سخن ہے۔ شَاکِلَۃٌ : کا معنی عام طور پر ” طریقہ “ کیا جاتا ہے۔ علامہ قرطبی کی تحقیق یہ ہے کہ مجاہد نے اس کا معنی ” طبیعت “ کیا ہے اور مقاتل نے اس کا معنی ” جبلت “ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قریش اور دوسرے مشرکینِ مکہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کے بارے میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ کوئی باعثِ تعجب نہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے بت پرستی اور جہالت کے باعث اپنی جبلت اس حد تک بگاڑ لی ہے کہ جس طرح ملاوٹ والی غذا کھانے والا ملاوٹ سے پاک غذا ہضم نہیں کرسکتا اور جس طرح بری صحبت میں بیٹھنے والا اچھی صحبت سے اعراض کرتا ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی توحید اور آخرت کے تصور کو قبول کرنے سے عاجز ہیں۔ مکارمِ اخلاق کی تعلیم انھیں اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ان کی طبیعتوں کے لیے بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ یہ اپنی زندگی کو جس طریقے پر گزار رہے ہیں، اس سے مختلف طریقے پر چلنا ان کے لیے آسان نہیں۔ ویسے تو یہ بات کسی قوم کے لیے بھی آسان نہیں ہوتی جو ایک خاص طرز کی زندگی کے عادی ہو۔ لیکن ان کے جمود اور جہالت نے انھیں بالکل بےبس کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ ﷺ ان سے توقعات باندھنے کی بجائے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں اور ان سے صاف صاف کہہ دیں کہ تم میں تو یہ صلاحیت نہیں کہ تم یہ فیصلہ کرسکو کہ صحیح راستہ کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اگر کوئی ذات فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لیے ہم یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں کہ وہی جانتا ہے کہ صحیح راستے پر کون ہے۔ اولاً تو اس نے اپنے علم کی سند دے کر مجھے مبعوث فرمایا اور مجھ پر اپنی کتاب اتاری۔ یہ میرے صحیح راستے پر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن اگر تمہیں یہ دلیل اپیل نہیں کرتی تو پھر حالات بتادیں گے کہ صحیح راستے پر کون تھا۔ بس چند سال تک انتظار کرو، تم ہر بات اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔
Top