Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 84
قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖ١ؕ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں كُلٌّ : ہر ایک يَّعْمَلُ : کام کرتا ہے پر عَلٰي : پر شَاكِلَتِهٖ : اپنا طریقہ فَرَبُّكُمْ : سو تمہارا پروردگار اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ هُوَ : کہ وہ کون اَهْدٰى : زیادہ صحیح سَبِيْلًا : راستہ
تو کہہ ہر ایک کام کرتا ہے اپنے ڈھنگ پر سو تیرا رب خوب جانتا ہے کس نے خوب پا لیا راستہ۔
معارف و مسائل
كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ لفظ شَاكِلَتِهٖ کی تفسیر میں ائمہ سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں طبیعت عادت جبلت نیت طریقہ وغیرہ اور حاصل سب کا یہ ہے کہ ہر انسان کی اپنے ماحول اور عادات اور رسم و رواج کے اعتبار سے ایک عادت اور طبعیت ثانیہ بن جاتی ہے اس کا عمل اسی کے تابع رہتا ہے (قرطبی) اس میں انسان کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ برے ماحول بری صحبت اور بری عادتوں سے پرہیز کرے نیک لوگوں کی صحبت اور اچھی عادات کا خوگر بنے (جصاص) کیونکہ اپنے ماحول اور صحبت اور رسم و رواج سے انسان کی ایک طبیعت بن جاتی ہے اس کا ہر عمل اسی کے تابع چلتا ہے۔
امام جصاص نے اس جگہ شاکلہ کے ایک معنی ہم شکل کے بھی کئے ہیں اس معنی کے لحاظ سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق آدمی سے مانوس ہوتا ہے نیک آدمی نیک سے اور شریر شریر سے مانوس ہوتا ہے اسی کے طریقہ پر چلتا ہے اور اس کی تطیر حق تعالیٰ کا یہ قول ہے۔
(آیت) اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ اور والطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ یعنی خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق مرد و عورت سے مانوس ہوتا ہے اور حاصل مطلب اس کا بھی اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ خراب صحبت اور خراب عادت سے پرہیز کا اہتمام کرے۔
Top