Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
(وہ آپ ﷺ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے ! کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم بس تھوڑا سا علم دیے گئے ہو۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْـتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِیْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 85) (وہ آپ ﷺ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیے ! کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم بس تھوڑا سا علم دیے گئے ہو۔ ) روح سے متعلق سوال کا جواب سیاق وسباق کی روشنی میں اگلی آیات میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو مخالفین قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی رسالت کے حوالے سے کرتے تھے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے ایسے ہی ایک سوال کا جواب ہے۔ جب نبی کریم ﷺ ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور انھیں بتاتے کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی کتاب کی ہیں جو مجھ پر نازل ہوئی ہے تو وہ مختلف طریقوں سے اس کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتے۔ انھیں کوششوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ یہ پوچھتے کہ یہ قرآن تمہیں کون سکھاتا ہے یا کون لکھ کردیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کریم کی زبان اور اس میں بیان کیے جانے والے مضامین نبی کریم ﷺ بلکہ پوری نوع انسانی کی بساط سے بلند ہیں۔ آنحضرت ﷺ انھیں میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور زندگی کا بیشتر حصہ گزرا، اس لیے آپ ﷺ کا علم اور آپ ﷺ کی معلومات قریش سے مختلف نہ تھیں۔ قریش جب قرآن کریم میں ایک نئی صورتحال کا سامنا کرتے تو انھیں یہ سوال پریشان کرتا کہ آخر محمد ﷺ یہ باتیں کہاں سے سیکھتے ہیں اور یہ زبان انھیں کون سکھاتا ہے۔ چناچہ یہی سوال انھوں نے آنحضرت ﷺ سے کیا۔ اس سوال سے ان کا منشا یہ تھا کہ یہ کتاب کہاں سے آتی ہے ؟ اس کا منبع کیا ہے اور یا یہ پوچھنا تھا کہ اس کا لانے والا کون ہے ؟ چناچہ اس آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ اس کتاب کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اسی وحی کو قرآن کریم نے روح کے نام سے یاد کیا ہے۔ اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وحی کو لانے والا وہ فرشتہ ہے جسے روح کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ تمہیں اس روح کی حقیقت سمجھائی جائے تو یہ بات تمہارے لیے مشکل ہے۔ اس لیے کہ وحی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کے دل پر کیسے اترتی ہے اور اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ کیفیتیں کبھی کسی کو سمجھائی نہیں جاسکتیں۔ وہ وہی جانتا ہے جس پر وہ کیفیت وارد ہوتی ہے۔ وحی کی حقیقت سے اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ کسی اور کو اس سے سابقہ نہیں پڑتا۔ اور جہاں تک وحی لانے والے فرشتے کا تعلق ہے، وہ بھی صرف نبیوں اور رسولوں پر اترتا ہے۔ ان کے علاوہ اس کی شناخت کسی اور کو حاصل نہیں۔ آیت کی تشریح میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ سیاق وسباق کے عین مطابق ہے۔ اس آیت سے پہلے بھی تین آیتوں میں قرآن کریم کا ذکر ہے۔ اور اس کے بعد کی تین آیتوں میں بھی قرآن کریم ہی کا ذکر ہے۔ اور یہ بات کسی طرح بھی قابل فہم نہیں ہوسکتی کہ سیاق وسباق سے بالکل تعلق توڑ کر درمیان میں ایک نئی آیت نازل کردی جائے۔ اور دوسری بات یہ کہ قرآن کریم نے خود روح کے بارے میں مختلف مواقع پر جو باتیں فرمائی ہیں ان میں یہ مفہوم بہت نمایاں ہے۔ چناچہ سورة مومن میں فرمایا گیا ہے کہ یُلْقِیْ الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ ” وہ اللہ، اپنے حکم سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے، یعنی وحی نازل کرتا ہے۔ “ سورة شوریٰ میں فرمایا گیا ہے کَذَالِکَ اَوْ حَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحَاً مِنْ اَمْرِنَا ” اور اسی طرح ہم نے آپ ﷺ کی طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی “ اس سے مراد وحی بھی ہوسکتی ہے اور حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں۔ اور تیسری یہ بات کہ سلف میں سے ابن عباس ( رح) ، قتادہ ( رح) اور حسن بصری ( رح) نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ اور ابن جریر ( رح) نے اس قول کو قتادہ ( رح) کے حوالے سے ابن عباس ( رح) کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور صاحب روح المعانی حسن ( رح) اور قتادہ ( رح) کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ” روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں اور سوال دراصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر وحی کا القا ہوتا ہے۔ “ روح کا مفہوم روایات کی روشنی میں بعض مفسرین نے ہماری محولہ بالا گزارشات سے بالکل الگ یہ فرمایا ہے کہ مشرکینِ مکہ کا سوال وحی الٰہی یا ذریعہ وحی الٰہی کے بارے میں نہیں تھا بلکہ روح حیوانی کے بارے میں تھا۔ ان کا مقصد روح کی حقیقت معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا چیز ہے اور وہ کس طرح انسانی بدن میں آتی جاتی ہے اور کس طرح اس سے حیوان اور انسان زندہ ہوتے ہیں۔ اپنے اس خیال پر وہ دو احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ایک کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود ( رض) ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے غیرآباد حصے میں چل رہا تھا اور آپ ﷺ کے دست مبارک میں کھجور کی ایک شاخ تھی۔ آپ ﷺ کا گزر چند یہودیوں پر ہوا۔ یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ محمد ﷺ آرہے ہیں، ان سے روح کے بارے میں سوال کرو۔ دوسروں نے ہرچند منع کیا، مگر انھوں نے سوال کر ڈالا۔ یہ سوال سن کر نبی کریم ﷺ لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے والی ہے۔ کچھ وقفہ کے بعد وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ قریش مکہ جو جا و بےجا سوالات رسول اللہ ﷺ سے کرتے رہتے تھے، ان کو خیال ہوا کہ یہود علم والے ہیں، ان کو پچھلی کتابوں کا بھی علم ہے، ان سے کچھ سوالات حاصل کیے جائیں جن کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کا امتحان لیا جائے۔ قریش نے یہود سے دریافت کرنے کے لیے اپنے آدمی بھیجے۔ ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا کہ تم ان سے روح کے متعلق سوال کرو۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں بھی سوال کرنے کے لیے کہا۔ روح سے متعلق روایت کو ابن کثیر نے نقل کیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ( رض) ہی سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود نے اپنے سوال میں یہ بھی کہا تھا کہ آپ ﷺ ہمیں بتلائیں کہ روح پر عذاب کس طرح ہوتا ہے۔ اس وقت تک نبی کریم ﷺ پر اس بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے اس وقت آپ ﷺ نے فوری جواب نہیں دیا۔ پھر حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ چناچہ ان دونوں روایات سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ سوال وحی الٰہی کے بارے میں نہیں تھا بلکہ روح حیوانی کے بارے میں تھا۔ اور چونکہ یہ دونوں روایات صحیح ہیں اور خاص طور پر ابن مسعود کی روایت کو چونکہ صحیحین نے بھی روایت کیا ہے، اس لیے اسے ترجیح دی جاتی ہے اور اس روایت میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ یہ آیت یہود کے جواب میں نازل ہوئی۔ تطبیق کی عاجزانہ کوشش اس سے انکار کی مجال نہیں کہ یہود نے سوال کیا اور آنحضرت ﷺ نے وحی کی روشنی میں اس کا جواب دیا اور وہ وحی اس آیت کی صورت میں نازل ہوئی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ کہا جائے کہ قرآن کریم میں یہ آیت جس سیاق وسباق میں آئی ہے اس سے مراد روح حیوانی ہے، ورنہ قرآن کریم کی ترتیب میں ایک بےربطی پیدا ہوتی ہے۔ رہی دونوں باتوں میں تعارض کی بات تو اس کو ختم کرنے اور تطبیق دینے کے لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ آیت تو مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اور حضرت ابن مسعود ( رض) کا واقعہ مدینے میں پیش آیا۔ اس وقت یہود کے جواب میں آنحضرت ﷺ پر جو کیفیت طاری ہوئی اور اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی، اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے آپ ﷺ کو توجہ دلائی گئی کہ اس بات کا جواب اس آیت کریمہ میں موجود ہے۔ اور آیت کریمہ میں جس طرح یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وحی الٰہی امرِربی ہے، اسی طرح یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ روح حیوانی بھی امر ربی ہے۔ ایک آیت سے دو باتوں کا استنباط یقینا روح قرآنی کے خلاف نہیں ہے۔ اس طرح سے دونوں تفسیروں میں تطبیق پیدا ہوجاتی ہے اور مفسرین کے درمیان اختلاف ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روح حیوانی کی حقیقت کو جاننے یا سلجھانے کے لیے متعدد علما نے کاوشیں کی ہیں۔ ان میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کا ایک مختصر سا رسالہ مختصر ہونے کے باوجود بڑی جامعیت اور اہمیت رکھتا ہے، لیکن یہ کہنے میں شاید کوئی مبالغہ نہ ہو کہ جس طرح ہمارے متکلمین اس موضوع پر داد تحقیق دے چکے ہیں، اسی طرح سائنسدانوں نے بھی اس میں بڑی وقیع کوششیں کی ہیں بلکہ سننے میں آیا ہے کہ انھوں نے بعض عجیب و غریب تجربات بھی کیے۔ لیکن وہ روح کے راز کو نہ پا سکے کہ وہ کیا چیز ہے جو انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے۔ امرِ ربی نے اس عقدہ کی کشود آسان کردی کہ روح ایک امر ربی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ میرے پروردگار کے حکم سے ہے۔ وہ عام مخلوقات کی طرح نہیں جو مادہ کے تطوّرات اور توالد و تناسل کے ذریعے سے وجود میں آتی ہے بلکہ وہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ کے حکم ” کُن “ سے پیدا ہونے والی چیز ہے۔ اس کے بعد انسانی عقل و دانش کو سپر انداز ہوجانا چاہیے اور بےفائدہ مشق تحقیق سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔
Top