Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور پہلو بدل لیتا ہے۔ اور جب اس کو مصیبت پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔
وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ ج وَاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّکَانَ یَؤْسًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 83) (اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور پہلو بدل لیتا ہے۔ اور جب اس کو مصیبت پہنچتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ ) انسان کا رویہ اس آیت کریمہ میں انسان کا لفظ لا کر پروردگار نے عام انسانی رویئے کی بات کی ہے لیکن روئے سخن چونکہ قریش کے مفسدین کی ہی طرف ہے اس لیے ان کا نام لیے بغیر منہ پھیر کر انسان کے عام لفظ سے انہی کی کمزوری کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انسان اپنی عادات واطوار میں عجیب واقع ہوا ہے کہ علم و دانش اور شعور و آگہی کے ہزاروں دعوئوں کے باوجودنہ تو اسے خیر و شر میں امتیاز کا ملکہ حاصل ہے اور نہ اسے اچھے اور برے حالات میں اپنے رویئے کو متوازن رکھنے کی صلاحیت ہے۔ کبھی خزف ریزوں کو ہیرے سمجھ بیٹھتا ہے اور کبھی ہیروں سے خزف ریزوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ قریش حرم کے متولی ہو کر اپنی جہالت پر نازاں ہیں اور اس رویئے نے انھیں اس حد تک اندھا کردیا ہے کہ قرآن کریم اور پرانے قصے کہانیوں میں تمیز نہیں کر پا رہے۔ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی جو پتھروں کے ڈھیر میں ہیروں سے بڑھ کر چمک رکھتی ہے ان کی شناخت تک سے بےبہرہ ہیں۔ قرآن کریم اپنی بےبدل فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیر رہا ہے، لیکن وہ زبان دانی کے دعوئوں کے باوجود اس کا منہ چڑاتے ہیں۔ وہ ذرا سے غور کرتے تو انھیں اندازہ ہوتا کہ قرآن کریم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہوسکتی جس سے دنیا کی کامیابیاں بھی وابستہ ہیں اور آخرت کی کامیابیاں بھی، لیکن ان کی بدتمیزیوں کا حال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب قرآن پڑھتے ہیں تو نہ صرف ان سے شائستہ اعراض کرتے ہیں جیسے شائستہ لوگوں کا کام ہوتا ہے بلکہ بےہودہ لوگوں کی طرح پہلو بدلتے اور منہ پھیر لیتے ہیں۔ عام انسانی زندگی میں بھی ان کا حال یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشحالی عطا کرتا ہے تو اس کے شکرگزار ہونے کی بجائے اکڑنے لگتے ہیں اور اگر کبھی بدحالی آ پکڑتی ہے تو پھر مایوس ہو کر ڈگ ڈال دیتے ہیں۔ قرآن کریم سے ان کے رویئے کے پیش نظر اگر پروردگار انھیں کسی ابتلا میں مبتلا کرتا ہے تو مایوس ہونے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کسی اچھی بات کی کیا توقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح سے آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ ان کے رویئے سے ہرگز دل گرفتہ نہ ہوں، یہ تو اپنی کمزوریوں کے مارے ہوئے لوگ ہیں، آپ ﷺ ان کی اتنی پرواہ کیوں کرتے ہیں۔
Top