Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
(ہم قرآن میں سے جو اتارتے ہیں وہ ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں میں یہ اضافہ نہیں کرتا، مگر خسارے میں۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاھُوَشِفَـآئٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ لا وَلاَ یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلاَّ خَسَارًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 82) (ہم قرآن میں سے جو اتارتے ہیں وہ ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں میں یہ اضافہ نہیں کرتا، مگر خسارے میں) قرآن اہل ایمان کے لیے رحمت اور ظالموں کے لیے محرومی ہے حق کے آجانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کردینے کے بعد ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قریش اپنے تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں اور وہ بیشک اپنے پندار کے گنبد سے باہر نکلنا پسند نہ کریں لیکن یہ حقیقت ہے کہ چند ہی سالوں میں اس ملک میں حق کا پھریرا لہرا رہا ہوگا اور یہاں کی لاقانونیت اور انسانوں کی منتشر بھیڑ ایک منظم معاشرے اور ایک مہذب ریاست کی شکل اختیار کرچکی ہوگی جس کا دستور اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہوگی جسے قرآن کے نام سے نازل کیا جارہا ہے اور جسے قریش کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن ان بدنصیبوں کو معلوم نہیں کہ اس قرآن میں جو کچھ نازل ہورہا ہے وہ انسان کے روحانی، اخلاقی اور عقلی روگوں کا مداوا ہے۔ اور انجام کار اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضمانت ہے۔ جیسے جیسے قرآنی تعلیمات پر ایمان و عمل بڑھتا جائے گا ویسے ویسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی گھٹا گہری ہوتی جائے گی۔ آج جبکہ ایمان لانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے پھر یہی ایمان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضمانت بن جائے گا۔ آج کا انسان امن کو ترستا ہے۔ جان مال اور آبرو ہر جگہ خطرے میں ہے، کمزور کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں، ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں۔ لیکن قرآنی نظام کے آجانے کے بعد نہ کوئی ظلم باقی رہے گا، نہ کوئی بدعنوانی باقی رہے گی۔ ہر طرح کے امتیازات مٹا دیے جائیں گے، انسانی دکھوں کو شفا ملے گی اور انسانی شقاوت رحمت میں تبدیل ہوجائے گی۔ لیکن جو لوگ کسی طرح بھی اس پر کان نہیں دھریں گے اور اپنی مخالفت اور مدافعت پر جمے رہیں گے قرآن کا نزول اور اس کی بالادستی ان کے لیے خسارے اور تباہی کا باعث ہوگی۔ ایک وقت آئے گا کہ اس ملک کی سرزمین ان کو جگہ دینے سے انکار کر دے گی۔ انھیں اسلام کی آغوش کے سوا کہیں پناہ دکھائی نہیں دے گی۔
Top