Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور تم قرابت دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو اللے تللے نہ اڑائو۔
وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْتَبْذِیْرًا۔ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 26۔ 27) (اور تم قرابت دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو اللے تللے نہ اڑائو۔ اللے تللے اڑا دینے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ) اہلِ قرابت کے حقوق اللہ تعالیٰ کے حق عبادت اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بعد تیسرا حق ذوی القربیٰ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عقیدہ توحید مسلمانوں میں ایک معنوی اور روحانی وحدت کی بنیاد بنتا ہے اور پھر عبادات اور دوسرے اسلامی احکام اپنے روحانی تسلسل کے ساتھ اس حصار کو مضبوط کرنے کا کام دیتے ہیں ‘ اسی طرح خاندان کی جو اکائی والدین کی صورت میں وجود پذیر ہوتی ہے اور پھر اس خاندان کی شاخیں اور برگ و بار ان کی ذات سے پھوٹنے لگتے ہیں ‘ اس اکائی کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کمزور تنوں کی حفاظت کی جائے اور اس کے چاروں طرف قرابت کی دیواریں اٹھائی جائیں۔ تاکہ ایک خاندان جب خاندانوں کے اشتراک کے ساتھ معاشرے میں تبدیل ہو اور پھر یہ بڑھتے بڑھتے اسلامی ریاست کی شکل اختیار کریں تو اس کی اکائیاں باہم ایک دوسرے سے پیوست اور ایک دوسرے کی محافظ ہونی چاہئیں۔ جس طرح ایک مضبوط تنے پر صنوبر کی شاخیں لہراتی ہیں اسی طرح اسی خاندان کے تنے پر اسلامی ریاست کی ایک ایک شاخ آزادی سے لہرانی چاہیے۔ اسلام اسی وحدت اور یک رنگی کو مضبوط کرنے کے لیے ایک ترتیب کے ساتھ احکام دیتا ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ اسے آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ چناچہ والدین کے رشتے سے جو صلہ رحمی کا رشتہ پھوٹا اسی نے حق قرابت کو جنم دیا۔ اور اسی قرابت نے ساتھ مل کر ایک خاندان کی بنیاد رکھی۔ یہ صلہ رحمی کی بنیاد اس وقت تک فعال صورت میں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے جب تک کہ قرابت کے حقوق درجہ بدرجہ ادا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اسی قرابت کی کوئی ایک شاخ یتیمی یا مسکینی کی شکل میں اگر کمزور ہونے لگتی ہے تو وہ اس کی کمزوری کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور سنت طیبہ نے اس رشتے کے تحفظ کے لیے صلہ رحمی پر سب سے زیادہ زور دیا۔ اور قرآن کریم نے اہل کتاب کے جن مواعید اور مواثیق کا ذکر فرمایا ہے ان میں والدین کے بعد قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے حق کا ضرور ذکر فرمایا۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ اس کے لیے عہد اور میثاق لیے اور قرآن کریم نے ایک سے زیادہ جگہوں پر حق عبادت کی ادائیگی کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان رشتوں کے تحفظ کا بھی حکم دیا ہے۔ کیونکہ اگر ان رشتوں کا تحفظ نہ کیا جائے اور معاشرے کی ٹوٹتی ہوئی شاخوں کو نہ بچایا جائے تو اسلامی جماعت کی وہ اکائی جو والدین سے شروع ہو کر اسلامی ریاست سے مکمل ہوتی ہے وہ کبھی بھی دراڑوں اور شکست و ریخت سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ صلہ رحمی کی اہمیت عربی زبان میں قرابت کو رَحِمْیا رِحْم کہتے ہیں اور قرابت کا حق ادا کرنے کو وصل رحم یا صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ اس صلہ رحمی کا مقام اور اہمیت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کیا ہی اس کا اندازہ چند احادیث سے ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” الرحم شجنۃ من الرحمان قال اللّٰہ تعالیٰ مَنْ وَصَلَکَ وَصَلْتُہ وَ مَن قَطَعَکَ قَطَعتُہ “ (رحم (حقِ قرابت) مشتق ہے رحمان سے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کہ جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اس کو توڑدوں گا) یعنی انسانوں کے باہمی قرابت اور رشتہ داری کے تعلق کو اللہ تعالیٰ کے اسم پاک رحمان سے اور اس کی صفت رحمت سے خاص نسبت ہے اور وہی اس کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے اس کا عنوان رحم مقرر کیا گیا ہے۔ اسی خصوصی نسبت ہی کی وجہ سے عنداللہ اس کی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جو صلہ رحمی کرے گا یعنی قرابت اور رشتہ داری کا حق ادا کرے گا اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے وابستہ کرلے گا اور اپنا بنا لے گا۔ اور جو کوئی اس کے برعکس قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی ذات سے کاٹ دے گا اور دور اور بےتعلق کر دے گا۔ یہی بات ایک دوسری حدیث میں بھی فرمائی گئی : عن عبدالرحمان بن عوف قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول قال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اَنَا اللّٰہُ وَ اَنَا الرَّحْمَانُ خَلَقتُ الرَّحِم وَ شَقَقْتُ لَہَا مِن اسِمِی فَمَن وَصَلَہَا وَصَلتُہ وَ مَن قَطَعَ بَتَتَہُ (حضرت عبدالرحمان بن عوف سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں الرحمان ہوں۔ میں نے رشتہ قرابت کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمان کے مادہ سے نکال کر اس کو رحم کا نام دیا ہے۔ پس جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں اس کو توڑ دوں گا) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات اور مشیت سے پیدائش کا ایسانظام بنایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا رشتوں کے بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے۔ پھر ان رشتوں کے کچھ فطری تقاضے اور حقوق ہیں، جن کا عنوان اللہ تعالیٰ نے رحم مقرر کیا۔ جو اس کے نام رحمان سے مشتق ہے۔ یعنی دونوں کا مادہ ایک ہی ہے۔ پس جو بندہ انسان کی فطرت میں رکھے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ان حقوق اور تقاضوں کو ادا کرے گا یعنی صلہ رحمی کرے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو جوڑے گا۔ یعنی اس کو اپنا بنا لے گا اور فضل و کرم سے نوازے گا اور اس کے برعکس کوئی قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا اور قرابت کے ان حقوق کو پامال کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور انسان کی فطرت میں رکھے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دے گا یعنی اپنے قرب اور اپنے رحم و کرم سے محروم کر دے گا۔ اس مفہوم کو استعارہ کے گہرے رنگ میں آنحضرت ﷺ نے ایک اور طریقے سے بھی بیان فرمایا۔ اس حدیث میں کلام کے تیور بہت تیکھے ہیں، جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صلہ رحمی کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اور قطع رحمی کس قدر خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : خلق اللّٰہ الخلق فلما فرغ قامت الرحم فاخذت بحقوی الرحمان فقال مہ قالت ھذا مقام العائذ بک من القطیعۃ فقال الا ترضین ان اصل من و صلک و اقطع من قطعک قالت بلٰی یا رب قال فذالک ( اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا جب پروردگار فارغ ہوئے تو رحم یعنی حق قرابت نے اٹھ کر پروردگار کا دامن پکڑ لیا۔ پروردگار نے فرمایا بتا کیا بات ہے ؟ حقِ قرابت نے کہا یہی جگہ قطع رحمی سے آپ کی پناہ لینے کی ہے۔ پروردگار نے فرمایا کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں اسے توڑ دوں۔ حقِ قرابت نے کہا کیوں نہیں اے رب میں اس پر راضی ہوں۔ پروردگار نے فرمایا پھر یہی کچھ ہوگا ) اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات پیدا فرمائیں تو اسی دن حق قرابت کو باریابی کا موقع بھی دیا۔ اس نے پروردگار کا دامن تھام کر یہ عرض کیا یا اللہ آج ہی اس اس بات کا فیصلہ ہوجانا چاہیے کہ اگر انسانی معاشرہ باقی رکھنا ہے تو اس کا تمام تر دارومدار میرے ساتھ گہری وفاداری پر ہونا چاہیے تو پروردگار نے اعلان فرما دیا کہ میں انسانوں کے ساتھ جو سلوک بھی کروں گا وہ تمہارے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے کروں گا۔ یہ رحم اور رحمان کے باہمی تعلق اور لفظی اشتراک کی طرف حدیث میں جو بار بار اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح کا اشارہ ہمیں قرآن کریم میں بھی ملتا ہے۔ سورة نساء میں ہے : وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامِ (اور جس خدا کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا اور رشتوں کا خیال رکھنا) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اسی معاشرہ پر برستی ہے جن کے باہمی تعلقات بالخصوص قرابت کے تعلقات مضبوط اور باہم ایک دوسرے سے پیوست ہوں اور اگر ان میں دراڑیں پڑجاتی ہیں یا یہ خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تو ایسا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے رحم سے دور ہوجاتا ہے۔ آج دنیا میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایات سے محرومی کا منظر جو ہر جگہ نظر آرہا ہے بلا شبہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہماری بہت سی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان احادیث کی روشنی میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اس بربادی اور محرومی میں بڑا دخل ہمارے اس جرم کو بھی ہے کہ صلہ رحمی اور اس سے متعلق تعلیم و ہدایات کو ہماری غالب اکثریت نے بالکل بھلا ہی دیا ہے اور اس باب میں ہمارا طرز عمل غیر مسلمانوں سے بھی بدتر ہے۔ ہماری بدنصیبی کا عالم تو یہ ہے کہ رشتہ ٔ قرابت جسے بار بار احادیث میں صلہ رحمی یا وصل رحم کا نام دیا گیا ہے ہم اس کا صحیح احساس پیدا کر کے اس کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کی بجائے اس کے حقیقی تصور تک سے محروم ہوگئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے رشتہ قرابت کو وصل رحم کی بجائے فصلِ رحم اور صلہ رحمی کی جائے قطع رحمی میں تبدیل کردیا ہے۔ جاہلیتِ قدیمہ کی طرح اس رشتہ کو محبت و مودت کا ذریعہ بنانے کی بجائے ہم نے رقابت اور ہمسری کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اہل قرابت کی کامیابیوں پر خوشی اور مسرت کی بجائے ہم حسد کا شکار ہو کر دل گرفتگی کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے دیہات میں رحم و قرابت کے اس نازک اور محترم رشتے کو شریک کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاملہ صرف صحت مند مسابقت اور تنافس تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ حسد و بغض سے گذر کر جدال و فساد تک پہنچ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قطع رحمی کو نہ صرف بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے دنیا میں اللہ کی رحمت سے محرومی اور آخرت میں جنت سے محرومی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ (قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ) یعنی قطع رحمی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس گناہ کی گندگی کے ساتھ کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکے گا۔ ہاں جب سزا پا کر اور اس کی تکلیفیں اٹھا کر اس گناہ سے پاک ہوجائے گا اور اللہ کی طرف سے اسے معافی مل جائے گی۔ تب اس کے لیے جنت میں جانا ممکن ہوگا۔ ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو شب قدر مل جائے یا کوئی اور ایسا لمحہ نصیب ہوجائے جس میں قبولیت دعا کا وعدہ فرمایا گیا ہے تو رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ چند اشخاص ہیں جن کی دعائیں ایسے موقعوں پر بھی قبول نہیں ہوتیں اور ایسے مواقع پر بھی ان کے گناہ معاف نہیں ہوتے، جب تک وہ اپنی عادت بد سے باز نہ آجائیں۔ ان بدنصیب لوگوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو قطع رحمی کرتا ہے۔ یعنی اہل قرابت کے ساتھ اس کا تعلق مناسب نہیں ہے اور وہ ان کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ آنحضرت ﷺ کے ایک اور ارشاد سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عموماً ہر گناہ گار کو ارتکابِ گناہ کے بعد سنبھلنے کا موقع دیتے ہیں اور اس بات کی اسے مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی حالت درست کرنا چاہے تو کرلے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا چاہے تو مغفرت طلب کرلے، بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے مجرم کو بھی دنیا میں نہیں پکڑا جاتا بلکہ اس کی سزا آخرت میں اٹھا رکھی جاتی ہے۔ لیکن یہ قطع رحمی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس گناہ کے ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی وہ اس کی سزا پائے گا۔ عن ابی بکرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ما من ذنب احری ان یعجل اللّٰہ لصاحبہ العقوبۃ فی الدنیا مع ما یدخر لہ فی الاٰخرۃ من البغی و قطیعۃ الرحم (حضرت ابوبکر ( رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ خدا تعالیٰ اس کے مرتکب کو بہت جلد دنیا ہی میں اس کا بدلہ یا عذاب دے اور آخرت میں بھی اس کے عذاب کو جمع رکھے مگر دو گناہ ہیں، امام وقت کے خلاف بغاوت اور قطع رحمی) صلہ رحمی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں اور جنت میں داخلے کی ضمانت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی نعمتوں سے سرفراز فرماتا اور بہت سی دنیوی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ان میں سے دو چیزوں کا ذکر آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا : عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم من احب ان یبسط لہ فی رزقہ و ینساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ (حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی یہ چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی اور کشادگی ہو اور دنیا میں اس کے آثار قدیم تا دیر رہیں (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو وہ (اہلِ قرابت کے ساتھ) صلہ رحمی کرے) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صلہ رحمی یعنی اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک وہ مبارک عمل ہے جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی اور برکت ہوتی ہے۔ بظاہر رزق میں وسعت اور عمر میں زیادتی دو الگ الگ چیزیں اور بےجوڑ سے چیزیں معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ایک تعلق بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب آدمی اہل قرابت سے صلہ رحمی کرے گا اور حسن سلوک کرے گا تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ اہل قرابت کی مالی خدمت کی جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اپنا وقت اور اپنی زندگی کا کچھ حصہ ان کے کاموں میں لگایا جائے۔ اس لحاظ سے رزق اور مال میں وسعت مال خرچ کرنے کا بدلہ ہے۔ اور زندگی کی مدت میں اضافہ اور برکت وقت خرچ کرنے کی جزا ہے اور اگر ظاہری نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خاندانی جھگڑے اور خانگی الجھنیں جو زیادہ تر حق قرابت ادا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور آدمی کے لیے دلی پریشانی اور اندرونی کڑھن اور گھٹن کا باعث بنتی ہیں اور کاروبار اور صحت ہر چیز کو متاثر کرتی ہیں۔ لیکن جو لوگ اہل خاندان اور اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کا برتائو کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک رکھتے ہیں ان کی زندگی طمانیت اور خوش دلی کے ساتھ گزرتی ہے اور ہر لحاظ سے ان کے حالات بہتر رہتے ہیں اور فضل خداوندی ان کے شامل حال رہتا ہے اور یہ اطمینان اور دلجمعی رزق میں وسعت اور درازی عمر کا سبب بنتی ہے۔ قطع رحمی دنیا و آخرت میں خسارے کا سبب ہے جس طرح صلہ رحمی دنیا میں درازیِ عمر اور وسعت رزق کا سبب ہے اسی طرح قطع رحمی دنیا و آخرت کے نقصان اور خسران کا باعث ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَمَا یَضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفَاسِقِیْنَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُوْصَلَ وَ یَفْسُدُوْنَ فِی الْارَضِ ۔ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ ( قرآن کریم کی ہدایتے فاسق لوگ ہی محروم رہتے ہیں۔ فاسق وہ ہیں جو اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں) اس آیت میں اللہ کے عہد کو توڑنے کے فوراً بعد حق قرابت کو توڑنے کا ذکر فرمایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے یعنی اس کی بندگی سے انکار کرنے کے بعد دوسرے درجے کا اگر کوئی جرم ہوسکتا ہے تو وہ قرابت کے رشتے کو توڑنا اور قرابت کے حقوق ادا نہ کرنا ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسا کرنے والے کو فاسق کہا گیا ہے۔ فاسق فسق سے اسم فاعل ہے۔ فسق کا معنی ہے حدود اللہ سے تجاوز کر جانا کیونکہ عربی کا محاورہ ہے : فسقت الرطبۃ عن القشرۃ (کھجور کا چھلکے سے پھدک کر نکل جانا) اسی سے فاسق کا مفہوم پیدا ہوا وہ شخص جو حدود اللہ سے پھلانگتا ہوا نکل جائے اور اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرے۔ ایسا آدمی اگر ایک طرف قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رہتا ہے تو دوسری طرف دنیا اور آخرت میں ناکامی اور خسران اس کا مقدر ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اس بدنصیبی کا سبب قطع رحمی کے سوا اور کیا ہے ؟ صلہ رحمی کی اہمیت و افادیت اور دنیا و آخرت میں اس کی وجہ سے کامیابی و کامرانی اور قطع رحمی کی قباحت و شناعت اور اس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں ناکامی و رسوائی کی وضاحت کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صلہ رحمی کی حقیقت کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں اور قرآن و سنت نے اس سے متعلق کیا ہدایات دی ہیں ؟ صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ والدین کے حوالے سے جود دھیالی اور ننھیالی رشتے وجود میں میں آتے ہیں اور پھر نکاح اور شادی خانہ آبادی کے بعد جو صہری رشتے اور روابط پیدا ہوتے ہیں ان سب رشتوں کا لحاظ کیا جائے ان سے روابط نبھانے کی کوشش کی جائے اور اگر تغیر حالات یا ناگہانی افتاد سے اہل قرابت میں کوئی کسی طرح کے تعاون اور اعانت کا ضرورت مند ہو تو بقدر مقدور دست تعاون دراز کیا جائے۔ اسلام اس میں معاملہ میں عام انسانی سطح سے بلند ہو کر اہل قرابت سے حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ یعنی وہ صرف اس بات کا حکم نہیں دیتا کہ اہل قرابت کے حقوق ادا کیے جائیں کیونکہ یہ تو عدل کا تقاضہ ہے وہ تو احسان کا حکم دیتا ہے جو ادائے حقوق سے آگے کا مرحلہ ہے جود و کرم اور فیاضی جیسے الفاظ بھی شاید اس کا مفہوم واضح کرنے کے لیے کافی نہیں۔ اس معاملے میں اس میں اسلام نے جس ژرف نگاہی نزاکتِ احساس اور اخلاق کی انتہائی بلندی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کا احاطہ کرتا تو مکن نہیں چند ضروری ہدایات کا ذکر کرتا ہوں۔ 1 سب سے پہلی بات یہ کہ حق قرابت کی اہمیت اور شرعی حیثیت کے ادراک کے ساتھ ساتھ اہل قرابت کے رشتوں کا ادراک ہو۔ یعنی جو اہل قرابت رشتے میں بڑے ہیں، ان کے رشتے کے تقدس کا لحاظ کیا جائے اور جو عمر میں بڑے ہیں ان کی عمر کا احترام کیا جائے۔ چچا، تایا پھوپھی ماموں خالہ بھائی بہنیں سسر ساس بیوی کے بھائی یہ سب رشتے اپنی ایک عظمت اور تقدس رکھتے ہیں۔ انھیں کبھی مجروح نہ ہونے دیا جائے ان کی اولادیں اگر عمر میں بڑی ہوں تو احترام ملحوظ رکھا جائے اور اس میں بطور ِخاص اس بات کا خیال رکھا جائے کہ قرابت دار اور رشتے دار اپنے حق قرابت کی وجہ سے آپ کی طرف سے احترام خیر خواہی اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ان کی ذاتی حیثیت معاشرتی مقام اور مالی حالت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ آج کی گمراہیوں میں ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ ہم میل ملاپ میں معاشرتی مقام، مالی حیثیت اور ذاتی وجاہت کو ہمیشہ اولیت دیتے ہیں۔ اگر کوئی عہدہ و منصب اور اثر و نفوذ میں ہم جیسا یا ہم سے بڑھ کر ہے تو ہم سو چکر کاٹ کر بھی رشتہ ڈھونڈ نکالیں گے اور اگر کوئی ظاہری حیثیت میں فروتر اور مالی حیثیت میں بےمایہ آدمی ہے تو قریبی قرابت رکھتے ہوئے بھی ہم پہچاننے سے انکار کردیں گے۔ اسلام شدت سے اسے ناپسند کرتا ہے۔ وہ صلہ رحمی یعنی حق قرابت کے احترام و اہتمام کا حکم دیتا ہے۔ یہی اس کے نزدیک تعلقات کی حقیقی بنیاد اور معاشرت کی حقیقی روح ہے۔ 2 اہلِ قرابت کے حقوق اور حسن سلوک کے ضمن میں صرف معاشرتی احترام کافی نہیں۔ اگر یہ حسن سلوک کی بنیاد ہے اور اس پر باقی عمارت استوار کی جاسکتی ہے بلکہ اگر کوئی قرابت دار مالی دشواریوں کا شکار ہے تو آپ کی طرف سے زبانی احترام اس کی ضرورت کا مداوا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ؎ باتوں سے کبھی درد کا درماں نہیں ہوتا شبنم سے کبھی پیاس بجھائی نہیں جاتی اس لیے قرآن کریم نے واضح طور پر ذوی القربیٰ کے لیے مالی اعانت کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مالی اعانت کو خیرات یا احسان نہیں، بلکہ ان کا حق قرار دیا۔ یعنی جب کوئی مالدار اپنے غریب رشتے دار کی مالی اعانت کرے تو کبھی یہ گمان نہ کرے کہ میں اس پر کوئی احسان کر رہا ہوں۔ نہ اسے کبھی احساس جتلائے اور نہ اپنے دل میں کبھی ایسا خیال لائے، بلکہ یہ سمجھ کر اس کی مدد کرے کہ یہ اس کا میرے ذمہ حق تھا جو میں اسے لوٹا رہا ہوں۔ جیسے جیسے یہ خیال اس کے ذہن میں پختہ ہوتا جائے گا ویسے ویسے اس کی یہ کیفیت ہوتی جائے گی کہ وہ خود ضرورت مند رشتہ داروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدد کرے گا۔ وہ اس بات کا انتظار نہیں کرے گا کہ ضرورت مند اس کے دروازے پر آ کر دست سوال دراز کریں۔ دیکھئے قرآن کریم اس معاملے میں کس وضاحت سے احکام دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ ۔ فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ (اہلِ قرابت کو اس کا حق ادا کرو) اور سچے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَ اٰتِی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی (اور وہ محض اللہ کی محبت کی بناء پر قرابت داروں کو مال دیتے ہیں) دیکھئے ان آیات میں دو باتیں ارشاد فرمائیں : 1 اپنے رشتے داروں کی مدد کرو کیونکہ یہ انکا حق ہے۔ یہ حق ادا کرنا تم پر لازم ہے۔ 2 سچے مسلمان محض اللہ کی رضا کے لیے رشتہ داروں کی مالی اعانت کرتے ہیں۔ ان پر احسان نہیں کرتے۔ مزید فرمایا : یَسْئْلُوْنَکَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ ۔ قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ کہہ دیجیے جو مال بھی تم خرچ کرو وہ (پہلے) والدین کے لیے ہے پھر اہل قرابت کے لیے) یعنی مالی تعاون اور خدمت کے لیے سب سے اولین جگہ والدین ہیں اس کے بعد قرابت دار اور رشتے دار ہیں۔ والدین تو خیر اولاد کی ذمہ داری ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آدمی مال خرچ کرنا چاہے حتیٰ کہ زکوۃ بھی دینا چاہے تو سب سے پہلے اور اور سب سے اہم مصرف اعزہ و اقرباء ہیں۔ ان کو نظر انداز کر کے عام مسلمانوں کی مالی اعانت کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ 3 مسلمانوں میں جو اخلاقی کمزوریاں آئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم بالعموم معاشرتی تعلقات اور میل ملاپ ان رشتہ داروں سے رکھتے ہیں جو ہم سے رکھتے ہیں۔ جو ہمارے یہاں آتے ہیں ہم ان کے یہاں جاتے ہیں۔ جو اپنی تقریبات میں ہمیں دعوت دیتے ہیں ہم اپنی تقریبات میں انھیں بلاتے ہیں۔ جو ہمیں نظر انداز کرتا ہے ہم بھول کر بھی اس کا نام لینا پسند نہیں کرتیّ گویا ہمارے معاشرتی تعلقات بھی ترازو کے تول پر چڑھے رہتے ہیں۔ جس میں تعلق محبت اور قرابت کی علامت نہیں، بلکہ اس ہاتھ لے اس ہاتھ دے۔ یہ سودا نقد بہ نقد ہے، والا معاملہ ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے اور صلہ رحمی کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلہا (وہ آدمی صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو (صلہ رحمی کرنے والے اپنے اقربا کے ساتھ) بدلہ کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی کرے) صلہ رحمی تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اعزہ و اقرباء کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی کے نتیجہ میں وجود میں آتا ہے۔ لیکن اگر اسے دکانداری اور معاوضہ کی صوت دے دی جائے تو پھر صلہ رحمی کا جذبہ فروغ پذیر ہونے کی بجائے روز برو زکمزور ہوتا جائے گا۔ آخر ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ کی یہ بستی جذباتِ اخوت و محبت کا مرکز اور انسانیت کا محور و منبع بننے کی بجائے ایک دکان میں تبدیل ہوجائے گی۔ جب کہ اسلامی تعلیمات کا حاصل ایسے اخلاقی اوصاف پیدا کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اخلاق کا عکس ہوں اور جن کے پس منظر میں اپنے خالق ومالک سے محبت اور خلق خدا سے ہمدردی و خیر خواہی کے جذبے کے سوا اور کوئی جذبہ کار فرما نہ ہو۔ بلکہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات قدم بقدم جس طرح اپنے ماننے والوں کو اخلاقی بلندیوں کی طرف لے جانا چاہتی ہیں اس میں اس بدلے اور معاوضے کی خست کا تو کیا گزر ہوسکتا ہے البتہ اس میں ایسی ہدایات ضرور ہیں جس میں جذبہ اخلاص و محبت نفی ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو ایک بےمایہ اپنی محنت کی کمائی میں سے اپنے کسی ایسے عزیز پر خرچ کرتا ہے جو اس کے خلاف اپنے دل میں عداوت رکھتا ہے۔ اندازہ فرمایئے۔ ایک بےمایہ یعنی غریب اور مفلوک الحال شخص جس کا کل سرمایہ دن بھر کی کمائی ہے جو اس نے اپنے جگر خون کر کے اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے مہیا کی ہے۔ وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ایسے عزیز اور رشتہ دار پر خرچ کر رہا ہے جس سے رشتہ محبت تو دور کی بات ہے اس کے برعکس وہ اپنے دل میں اس کے لیے عداوت اور دشمنی کے جذبت رکھتا ہے اور یہ اس کے ان جذبات سے واقف بھی ہے لیکن یہ پھر بھی اس پر خرچ کر رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا اس سے بڑھ کر اعزہ و اقرباء کے لیے صلہ رحمی کا کوئی اور مرحلہ بھی ہوسکتا ہے۔ 4 انسانی فطرت اور انسانی داعیات و جذبات کے جاننے والے جانتے ہیں کہ آدمی اپنے اعزہ و اقرباء سے حسن سلوک کرتے ہوئے ان کی بےالتفاتیوں کو بھی برداشت کرلیتا ہے اور اگر اللہ نے توفیق دی ہو تو اپنی ضرورتوں پر ترجیح بھی دے سکتا ہے اور اگر رحمت حق یاوری کرے تو دشمنوں سے پیار بھی کرسکتا ہے۔ لیکن ایک ایسے شخص کو برداشت کرنا چاہے وہ کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا اور مالی اعانت کرنا، جس نے اپنے محسن کی عزت پر حملہ کیا ہو اور جس کے طعن وتشنیع یا بدگمانی اور بد زبانی کے تیر خلعت عفت و عصمت کو تار تار کر رہے ہوں اگر ناممکن نہیں تو ممکن بھی نہیں، لیکن اسلام کی صلہ رحمی یعنی حق قرابت کی ادائیگی بلکہ حسن سلوک کے حوالے سے تعلیم و تاکید اس ناممکن کو ممکن ہی نہیں بلکہ امر واقع بنا کر یہ حکم دے رہی ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے قرابتدار کیساہی سلوک کریں تمہیں ہرگز ان سے بدسلوکی کی اجازت نہیں بلکہ اگر تم پہلے ان سے مالی اعانت کی صورت میں حُسنِ سلوک کر رہے تھے تو اب ان انتہائی ناگوار بلکہ بظاہر ناقابل برداشت حملوں کے بعد بھی تم اپنا رویہ ہرگز نہ بدلو۔ ارشاد فرمایا : وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰاکِیْنَ وَ الْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاط الَاَ یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لـَکُمْطوَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (تم میں جو لوگ بڑائی اور کشائش والے ہیں وہ قرابتداروں کو نہ دینے کی قسم نہ کھائیں، کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے) آیت کا شان نزول یہ آیت حضرت صدیق اکبر ( رض) کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب انھوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ مسطح بن اثاثہ ( رض) کو کوئی نفع نہیں پہنچائیں گے۔ یہ مسطح حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے خالہ زاد تھے۔ حضرت صدیق اکبر ان کی ناداری کے سبب ان کے پورے خاندان کی مالی کفالت فرماتے تھے لیکن واقعہ افک میں منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر انھوں نے منافقین کی ہاں میں ہاں ملانی شروع کردی اور حضرت صدیقہ ( رض) سے متعلق نامناسب باتیں کھیں۔ حضرت کا ایسی باتوں سے دل گرفتہ ہونا ایک فطری امر تھا کیونکہ ان باتوں سے براہ راست ان کی عزت پر حملہ کیا گیا تھا۔ کیونکہ حضرت صدیقہ ( رض) آپ کی صاحبزادی تھیں۔ پھر منافقین نے براہ راست آنحضرت ﷺ کے گھر کو نشانہ بنایا تھا جس کے اثرات ذات نبوی ﷺ اور منصب نبوت تک پہنچتے تھے۔ پھر مسطح کا اس مکروہ سازش میں اپنی سادگی سے شریک ہوجانا اس وجہ سے بھی تکلیف دہ تھا کہ وہ صدیق اکبر کے زیر بار احسان تھے۔ اور یہ محسن کشی کی بدترین مثال تھی جس کی ایک بدری صحابی سے ہرگز توقع نہ کی جاسکتی تھی۔ ان تمام اسباب نے مل کر حضرت صدیق اکبر کو انتہا درجہ آرزدہ کردیا۔ چناچہ جب قرآن کریم کی آیات حضرت عائشہ ( رض) کی برأت میں نازل ہوئیں اور پروردگار نے حضرت مریم علیھا السلام کے بعد دنیا کی اس خوش قسمت ترین خاتون کی عفت و طہارت کی گواہی دی تو حضرت ابوبکر ( رض) نے قسم کھالی کہ وہ اب مسطح بن اثاثہ کی مالی کفالت نہیں کریں گے۔ تو اس پر قرآن کریم نے مداخلت فرمائی اور آپ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے سے روک دیا۔ تاہم آپ کے دل کو چونکہ اس سے بہت چوٹ لگ چکی تھی اس پرا للہ نے تعالیٰ نے یہ انعام دیا ” اَلَا یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُم “ (کیا انھیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دے) اسے سنتے ہی حضرت صدیق اکبر بول اٹھے : ” بلی واللّٰہ انا نحب ان تغفرلنا یا ربنا “ (کیوں نہیں۔ اللہ کی قسم ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں معاف فرما دیں۔ اے ہمارے رب ! ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرابتدار اور اعزہ و اقربا چاہے کیسا ہی رویہ اختیار کیوں نہ کریں ان سے مالی تعاون اور حسن سلوک روکا نہیں جاسکتا۔ 5 اہلِ قرابت کے ساتھ حسن سلوک کی یہ چار صورتیں ہیں جسے میں نے اپنے فہم کے مطابق عام انسانی احساسات اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بیان کیا ہے۔ ورنہ اہل دل اور اہل نظر کے یہاں اس کا دامن مزید وسیع ہوگا۔ البتہ ایک بات واضح رہنا چاہیے کہ حسن سلوک کی یہ تمام صورتیں معاشرت اور عملی زندگی سے متعلق ہیں، بلکہ بیشتر صورتوں میں مسلم قرابتدار اور غیر مسلم قرابتدار برابر ہیں۔ یعنی دونوں سے حسن سلوک کیا جائے گا۔ البتہ ایک حق ایسا ہے جس کے عموم میں تو تمام قرابتدار شامل ہیں لیکن خصوصی طور پر یہ حق صرف غیر مسلم قرابتداروں یا دین بیزار مسلمانوں یا دین سے بےنیاز مسلمانوں کا ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا : وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا) اس حکم پر عمل کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اپنے قریبی عزیزوں کو کھانے پر بلایا اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی۔ آنحضرت ﷺ کے دعوتی خطبے میں بطور خاص حضرت عباس بن عبدالمطلب ( رض) ، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب اور حضرت فاطمہ بتول ( رض) کے اسماء کا ذکر ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل قرابت کے جو حقوق پروردگار نے مقرر فرمائے ہیں ان میں صرف حسن معاشرت، ہمدردی، خیرخواہی اور مالی اعانت ہی نہیں، بلکہ ان سے بھی افضل ترین حق اسلام کی دعوت غیر مسلم قرابتداروں کے لیے اور تعلیم و تربیت دین سے بیزار اور اصلاح عقائد و اعمال کی دعوت مسلمان قرابتداروں کے لیے ہے جس طرح دوسرے حقوق سے متعلق سوال ہوگا۔ اسی طرح اس اہم تر اور نازک تر حق سے متعلق بھی باز پرس ہوگی۔ ہماری حرماں نصیبی کی کیا انتہا ہے کہ اولاً تو ہم دوسرے حقوق میں بھی انتہا درجہ کے کاہل و غافل واقع ہوئے ہیں۔ لیکن جو خوش قسمت لوگ کسی حد تک ان کے لیے فکر مند اور عامل بھی ہیں انھیں بھی اس اہم ترین حق کا تو بالکل احساس نہیں۔ اگر آپ انھیں اس کا احساس دلائیں بھی تو وہ اسے ایک دقیانوسی بات سمجھ کر خندہ استہزاء میں اڑا دیں گے حالانکہ کسی قوم کے افراد کا اصل سرمایہ اپنی شناخت اور تشخص کا شعور ہی ہوتا ہے اور اس کے بارے فکر مندی اور سعی و کاوش قوم کی زندگی اور روح کی طرح ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں اب تک کی قرآن و سنت سے ذوی القربیٰ کے حقوق اور صلہ رحمی کی بہت حد تک وضاحت ہوچکی اور اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کے مراتب و مواضع بھی کسی حد تک بیان ہوگئے۔ اب آخر میں صرف ایک بات عرض کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ ان باتوں کا تعلق صرف کتابی زندگی سے نہیں اور نہ ہی ان کی تاکید و ترغیب صرف خیر القرون تک محدود رہی۔ بلکہ دوسری صدی ہجری کے آغاز یعنی حضرت عمر بن عبدالعزیز ( رض) کے زمانے سے لے کر آج تک قران کریم کی ایک آیت جس میں تمام قرآنی اوامر اور منہیات کا خلاصہ آگیا ہے اور جسے سن کر نہ جانے کتنے اہل زبان اس کی فصاحت و بلاغت اور جامعیت کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ جمعہ کے خطبات میں تلاوت کی جاتی ہے۔ اس آیت کے پہلے الفاظ ہیں : اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی (اللہ تمہیں حکم دیتا ہے عدل، احسان اور اہل قرابت (کے حقوق) ادا کرنے کا) اس آیت میں عدل اور احسان تو ایسے حقوق ہیں جن پر تمام حقوق و فرائض کا دارومدار ہے۔ کیونکہ عدل یہ ہے کہ جس کا جو حق ہم پر عائد ہوتا ہے ہم بےکم وکاست اسے ادا کریں۔ خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقتور۔ خواہ وہ ہم کو مبغوض ہو یا محبوب۔ اسی سے انسانی زندگی میں توازن اور اعتدال آتا ہے۔ جو انسانی زندگی کی بقا کی ضمانت ہے۔ احسان عدل سے ایک زائد چیز ہے۔ یہ صرف حق کی ادائیگی ہی کا تقاضہ نہیں کرتا بلکہ مزید برآں یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ دوسرے کے ساتھ ہمارا معاملہ کریمانہ اور فیاضانہ ہو۔ اس سے زندگی میں حسن، شائستگی، آسودگی اور ایثار کے جذبات وجود میں آتے ہیں۔ ان دو بنیادی باتوں کو بیان کرنے کے بعد ذوالقربی کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدل و احسان جن پر پوری معاشرتی زندگی کا دارومدار ہے ان کا سب سے پہلا محل اور ان کے سب سے بڑھ کر مستحق اہل قرابت ہیں، بلکہ ایک لحاظ سے وہ اس سے بڑھ کر استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ عدل و احسان کے حقدار تو وہ ویسے بھی ہیں البتہ قرابت کا حق رکھنے کے باعث وہ مزید احسان یعنی حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ اس مزید احسان کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا گیا ہے اور امت نے قرآن و سنت میں اس کی ترغیب و تاکید کو محسوس کرتے ہوئے خطباتِ جمعہ میں مستقل طور پر شامل کیا تاکہ ہر جمعہ کو اس کی یاد دہانی ہوتی رہے اور امت اس سے غفلت کے باعث صلہ رحمی کے فیوض و برکات سے محروم نہ رہ جائے اور قطع رحمی کا ارتکاب کر کے کسی محرومی اور تباہی سے دوچار نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرابتداروں کے حقوق ادا کرنے اور بیش از بیش حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ امت صلہ رحمی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے انعامات و برکات سے بہرہ ور ہو سکے۔ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق پیشِ نظر آیت کریمہ میں اہل قرابت کے بعد مسکین کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں مسکین کے ساتھ یتیم کا ذکر نہیں لیکن قرآن پاک کی اکثر آیات میں معاشرتی حقوق کی جو ترتیب رکھی گئی ہے اس میں اہل قرابت کے بعد یتیموں اور مسکینوں کا ذکر ہے۔ کیونکہ یتیم اور حاجت مند لوگ اہل قرابت میں سے بھی ہوسکتے ہیں اور دیگر مسلمانوں میں سے بھی۔ اس لیے اس کی ٹھیک جگہ اہل قرابت کے پہلو میں ہی ہونی چاہیے تھی۔ مزید یہ کہ یتیم اور مسکین دونوں مسلمان معاشرے کی یکساں ذمہ داری ہیں، اس لیے ہم مسکین کے ساتھ یتیم کا بھی ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یتیم اکیلے اور منفرد کو کہتے ہیں۔ جس سیپ میں ایک ہی موتی ہو اسے در یتیم کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یتیم وہ ہے جو بچپن یا لڑکپن میں یعنی بلوغ سے پہلے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے اکیلا اور تنہا رہ جائے۔ قریبی عزیزوں کے رحم و کرم پر ہو یا معاشرہ کی ہمدردی و خیرخواہی کا محتاج ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔ مسکین مسکنت سے ہے۔ مسکنت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بیچارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں۔ مگر نہ تو ان کی خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انھیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چناچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے : المسکین الذی لم یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ ولا یقوم فسأل الناس (مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے) گویا وہ ایک شریف، خوددار اور غریب آدمی ہے۔ یتیم اور مسکین دونوں ہی اپنی بےکسی اور درماندگی کی وجہ سے یکساں طور پر امداد و اعانت اور ہمدردی و خیر خواہی کے مستحق ہیں، لیکن یتیم مسکنت اور بیچارگی کے ساتھ ساتھ کم عمری اور صغر سنی کے باعث زیادہ ہمدردی و خیر خواہی کا مستحق ہے اور پھر مساکین میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے جنھیں یتیمی کی بےچارگی میں معاشرے نے سہارا دے کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زندگی کا بوجھ تو کسی نہ کسی طرح اٹھائے پھرے مگر ذلت و مسکنت سے پیچھا نہ چھڑا سکے۔ اس لیے قرآن کریم اگرچہ یتامیٰ اور مساکین دونوں کے حقوق پر زور دیتا ہے لیکن یتامیٰ کا ذکر پہلے کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی اہمیت اور بےچارگی کے باعث یقینا اولیت کے مستحق ہیں۔ قرآن پاک نے یتیموں اور مسکینوں کے حقوق اور خاندان اور معاشرے کے لیے ان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت واضح کرنے کے لیے چار طریقے اختیار کیے، لیکن ہم صرف ایک حوالے تک گفتگو کو محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم نے سب سے پہلے مختلف اسالیب اور متعدد تاریخی حوالوں سے ایک نہایت اہم حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ وہ یہ کہ تاریخ میں کتنی عظیم قومیں منصہ شہور پر آئیں کہ صدیاں گذر جانے کے باوجود آج تک ان کے حیرت انگیز تاریخی آثار ان کی عظمت اور قوت کی گواہی دیتے ہیں۔ جن میں قوم عاد ہے کہ جنھوں نے سب سے پہلے اونچے ستونوں پر عمارتیں کھری کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ بڑے بڑے قصرتعمیر کرنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔ قوت اور شان و شوکت کے اعتبار سے کوئی قوم اس وقت دنیا میں ان کی ٹکر کی نہیں تھی۔ پھر قوم ثمود اٹھی جس نے پہاڑوں کو ادھیڑ ڈالا۔ پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت عمارتیں بنانے والی شاید یہ پہلی قوم تھی۔ آج تک ان میں سے کئی عمارتوں کے آثار زندہ ہیں۔ پھر مصر کے فراعنہ ہیں جن کی جنگی قوت اور فوجوں کی کثرت بھی اپنی جگہ ایک حقیقت تھی لیکن اہرام مصر آج تک ان کی قوت و عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ آج کا ترقی یافتہ انسان تاحال ان کے فن تعمیر کی عظمت کے سامنے سرافگندہ و حیران ہے۔ یہ عظیم اور قوت و شوکت والی قومیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ عذاب کا کوڑا اس بری طرح سے ان پر برسا کہ وہ تاریخ میں عبرت کا نشان بن گئیں۔ قرآن کریم ان قوموں اور ان کی وجاہتوں کا ذکر کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ ان کی تباہی و بربادی کا سبب اپنے خالق ومالک سے انحراف اور طغیان و معصیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بےکس و بےبس اور سرافگندہ و درماندہ طبقات کی طرف سے بےپرواہی بلکہ ظلم تھا اور ان طبقات میں بطور خاص یتیم و مسکین کا وہ ذکر کرتا ہے کیونکہ جو معاشرہ یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں کرتا اس سے باقی پسماندہ اور مظلوم طبقات کی دادرسی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ارشادِ خداوندی ہے : کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلاَ تَحَآضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنَ (ہرگز نہیں (ان قوموں کی تباہی کا سبب اور کچھ نہیں) بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا دینے (ضروریات زندگی کی فراہمی) پر زور نہیں دیتے) یتیم اور مسکین کے حقوق کی عدم ادائیگی کا ذکر بطورخاص اس لیے بھی ہے کہ خاندان کسی بھی معاشرے کی اساس ہے۔ خاندان کی شکست و ریخت معاشرے کی اور آخرکار پوری قوم کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ خاندان کے ارکانِ اربعہ والدین، اولاد، زوجین اور اہل قرابت ہیں اور یتیم اگر خاندان ہی کا حصہ ہے یعنی بیٹا مرجانے کی صورت میں یتیم بچہ دادا کا پوتا ہے اور بھائی کی موت کی شکل میں یہ یتیم چچا کا بھتیجا ہے۔ اب اگر ایسے یتیم کے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خاندان میں کتنی دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ جب تک یہ یتیم بچہ ظلم کی تصویر بن کر زندگی گزارتا ہے تو دوسرے اہل قرابت چاہے لفظی ہمدردی کے سوا کچھ نہ کریں لیکن اس یتیم کے ساتھ ہونے والے سلوک کو نہ صرف محسوس کریں گے بلکہ خاندانی تقریبات میں موضوع سخن بھی بنائیں گے اور کبھی کبھی زیب داستاں کے طور پر بھی ذکر کریں گے۔ ایسی صورت میں خاندانی روابط اور روابط کے استحکام پر جو اثرات مرتب ہوں گے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ یہ تو وہ اثرات ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر خاندان پر اثرانداز ہوں گے، لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ یتیم بچہ اگر بےمروتی اور بدسلوکی کے سائے میں پروان چڑھتا ہے وہ دادا کی بےمروتی کو دیکھتا ہے تو خون کے گھونٹ پی کے رہ جاتا ہے کہ یہی میرے وہ دادا ہیں کہ میرے باپ کی زندگی میں سراپا محبت و شفقت تھے۔ وہ اپنے چچا اور تایا کے بدلے ہوئے رویہ کو دیکھتا ہے تو نہ جانے کیسے کیسے تاریک رجحانات اس کے رگ و پے میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ بچپنے کی وہ عمر جسے پیار اور محبت کی ٹھنڈک میں بسر ہونا چاہیے جب بےالتفاتی، بدسلوکی اور بےنیازی کی تیز دھوپ میں جلنے لگتی ہے تو اس نوخیز بچے کی محرومیاں خاندان سے نفرت، بزرگوں سے بدگمانی اور انسانی جذبات سے مایوسی میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ محرومیاں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح دہکنے لگتی ہیں جو آخرکار بغاوت اور انتقام کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور معاشرہ جن سے بالواسطہ متأثر ہوتا ہے اور اگر اس یتیم بچے کی کفالت کرنے والے اپنے نہیں پرائے ہیں تو پھر یہ بچہ بڑا ہو کر براہ راست معاشرے سے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتا ہے۔ یہی یتیم بچے بڑے ہو کر مسکین کہلاتے ہیں کیونکہ بعداز بلوغ یتیم، یتیم نہیں رہتا۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے تو معاشرہ کا کارآمد اور معزز فرد بن جاتا ہے اور اگر خاندان یا معاشرے کی بےپرواہی سے ضائع ہوجائے تو معاشرے کے لیے ناسور بن جاتا ہے۔ غالباً اسی بات کی طرف قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : اَرَاَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ (اے مخاطب تو نے اس شخصیت کو دیکھا جو روز جزا کو یا جزا کے قانون کو جھٹلاتا ہے) یعنی اسے اس بات سے انکار ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اعمال کی جزا و سزا سے گزرنا پڑے گا اور وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ دنیا میں جزا و سزا کا قانون جاری ہے جیسا کرو گے ویسے بھروگے یہاں کی ریت ہے۔ فَذَالِکَ الَّذِیْ یَدْعُ الْیَتِیْمَ وَلاَیَحَضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (اس شخص کے ایسے ہی خیالات کا نتیجہ ہے) کہ یہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر آمادہ نہیں کرتا) اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ محبت و مروت اور ایثار و ہمدردی سے محروم یہ طبقہ (یتیم و مسکین) وقت آنے پر معاشرے سے انتقام لینا ہے۔ جب یتیم کو چچا کے مظالم اور چچازاد بھائیوں کی بےاعتنائیاں یاد آتی ہیں تو وہ بڑا ہو کر چچازاد بھائیوں بلکہ تمام اہل قرابت سے اپنے زخموں کا انتقام لیتا ہے۔ اور اگر خاندان سے باہر معاشرہ بھی اس کی محرومیوں کا سبب بنتا رہا ہے تو وہ معاشرے کے افراد کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنا کر سکون حاصل کرتا ہے۔ یہ جو ہم نے نوجوانوں کو بینک لوٹتے، ڈاکے ڈالتے، عفتوں کے فانوس توڑتے اور عظمتوں کے چراغ بجھاتے دیکھتے ہیں یہ دراصل اپنی محرومیوں کا انتقام ہے اور پھر اس میں صرف یتامیٰ اور مساکین ہی شریک نہیں بلکہ بڑے اور خوشحال لیکن تہذیب خوردہ اور مغرب زدہ خاندانوں کے چشم و چراغ بھی ہیں جنھیں ان کی مائوں نے اپنی سوشل مصروفیات اور بیگمات کی تفریحات کے باعث پیار نہیں دیا۔ بچے ان کے پیار کو ترستے رہے لیکن وہ صنف نازک کے حقوق حاصل کرنے اور عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے دن بھر مختلف تقریبات میں شرکت اور اس کے لیے دن میں کئی کئی دفعہ لباس بدلنے کی مصروفیت کے باعث بچوں کے لیے وقت نہ نکال سکیں اور باپ جلب زر کی دوڑ اور کلبوں کی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے سکے۔ آج یہ بچے انسانی احساس سے تہی دامن انسانی معاشرے کو ادھیڑنے کھدیڑنے میں لگ گئے۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جو قومیں اپنے خاندان کے اجزا کو نہیں سمیٹتیں ان کے شیرازہ کو بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جو قومیں اپنے مساکین یعنی معاشرے کے گرے ہوئے اور پسماندہ افراد کو سہارا نہیں دیتیں یہی افراد معاشرے کے خلاف بغاوت کردیتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو کر قومی استحکام سے محروم ہوجاتا ہے۔ اب اس کو گرانے کے لیے چند حوادث ہی کافی ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں قرآن کریم ہمیں یہ بھی آگاہی دیتا ہے کہ ایسی قومیں اور ایسے معاشرے جو یتامیٰ و مساکین کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتے ان کی صرف دنیا ہی تباہ نہیں ہوتی ان کی آخرت بھی برباد ہوجاتی ہے۔ وہ انجام کار جہنم کا ایندھن بن جاتے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے : مَاذَا سَلَّـکُمْ فِی سَّقْرِ (اہل جہنم سے پوچھا جائے گا کس چیز نے تمہیں جہنم میں پہنچایا) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصْلِّیْنَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (وہ کہیں گے ہم نمازی نہیں تھے اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے) انسانی اجتماعیت جب بگاڑ کا شکار ہوتی ہے تو اس میں یوں تو اہل قرابت کے حقوق بھی ادا نہیں ہوتے اور یتیموں اور مسکینوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا، تاہم اہل قرابت اور انہی میں سے کمزور طبقہ یتامیٰ اور مساکین اپنی قرابت کے باعث کچھ نہ کچھ توجہ کے مستحق ضرور سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی انسانی اجتماعیت کے ایسے اجزا بھی ہیں جو ناموافق حالات میں کوئی سا سہارا نہیں پاتے۔ اسلام چونکہ ایک ہمہ گیر اور دوررس اثرات کا حامل دین ہے اس لیے اس کی رحمت کی بارش نے کسی ایسے طبقے کو بھی محروم نہیں رہنے دیا جن کا عام طور پر کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ انہی میں سے ایک طبقہ وہ ہے جنھیں ابن السبیل یعنی مسافر کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے بھی پیش نظر آیت کریمہ میں شامل فرمایا اور مسلمانوں کے حقوق میں اس کے حق کو بھی شامل کیا۔ مسافر کے حقوق مسافر اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک سے آنے والا کوئی شخص یا چند اشخاص جو کسی بھی نیک ارادے سے گھر سے نکلے ہوں چاہے وہ تبلیغی ارادے سے آئے ہوں یا تجارتی ارادے سے۔ گھومنے پھرنے اور سیر کرنے کے لیے یا کسی خاص علاقے کے تاریخی آثار دیکھنے یا کسی خاص علاقے میں خاص موسم سے محظوظ ہونے کے لیے۔ یہ تمام لوگ مسافر ہیں۔ ان میں دونوں طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ وہ بھی جو اپنے پاس سفر کی ضروریات کے لیے کافی سرمایہ رکھتے ہیں اور وہ بھی جو واجبی سا خرچ لے کر نکلے ہیں اور کسی وقت بھی ضروریات میں کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر اپنے ساتھ زرکثیر یا سہولیات کی ایک بڑی مقدار لے کر آئے ہیں یہ اندیشہ تو ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے کہ وہ کسی نقصان یا کسی حادثے کا شکار ہوجائیں۔ وہ سامان چوری ہوجائے، راستے میں ایکسیڈنٹ ہوجائے، کار تباہ ہوجائے، جسمانی طور پر کسی نقصان کا شکار ہوجائیں تو باوجود اس کے کہ یہ لوگ اپنی ذات میں مالدار اور معزز لوگ ہیں لیکن اب چونکہ حالات نے انھیں ضرورت مند اور حاجت مند بنادیا ہے تو اسلام نے ان کو وہ حقوق عطا کیے جو ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ضروری ہوسکتے ہیں۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ ان کی کوئی مالی مدد کرکے ان کو سفر کے قابل بنادیں۔ یہ بھی عین سعادت کی بات ہے اور آنحضرت ﷺ نے مختلف ارشادات میں اور قرآن کریم نے اپنی مختلف آیات میں ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے اور ننگوں کو کپڑا پہنانے کی بہت فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن دوسری صورت یہ ہے کہ وہ معاشرے کے پاس بطور مہمان آجائیں اور معاشرہ انھیں اپنے پاس مہمان ٹھہرا کر ان کو سنبھالا دینے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہوا اور آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ ہوئی اس وقت انسانی معاشرہ اتنا تہی دامن نہیں تھا کہ وہ اپنی آبادی میں آنے والے مسافروں کو پناہ دینے اور ان کو کھلانے پلانے سے عاجز ہو۔ اسلام سے پہلے بھی عرب اپنی ساری برائیوں کے باوجود اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ چناچہ ہر آنے والا مہمان جس گھر کے سامنے آجاتا وہ گھر اس کی میزبانی کرنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتا۔ یہ بات معلوم ہے کہ عرب میں عام طور پر قحط سالی کا سماں رہتا تھا اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ باایں ہمہ عرب رات کو اپنے گھروں کے سامنے آگ جلائے رکھتے تھے تاکہ صحرا میں گزرنے والے مسافر اس کو دیکھ کر بےجھجک چلے آئیں اور وہ اس بات کا خیال نہ کریں کہ اس آبادی کے لوگ ان کو اپنے لیے بوجھ خیال کریں گے۔ یہ تو تہذیب نو کا ثمر ہے کہ پہلے مہمان خانوں اور سرایوں کا دور آیا اور آج ہوٹلوں کا دور ہے لیکن ان سہولتوں نے انسانی احساسات اور بنیادی اقدار سے مسلمانوں کو محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ آج بھی آپ دیہات میں چلے جائیں دیہات میں باہر سے آئے ہوئے مزدور جو دن بھر اجرت پر کام کرتے ہیں رات کو وہ مسجد کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کا کھڑے ہو کر یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ ہم مسجد کے مہمان ہیں، پھر نمازی ان کی ضروریات کے مطابق اپنے گھروں سے کھانا لے آتے ہیں۔ دیہات میں شاید ہی ایسی کوئی مسجد ہوگی جس کے ساتھ مسافروں کو ٹھہرانے کے لیے مسافرخانہ نہ بنایا گیا ہو۔ لیکن ہمارے بڑے بڑے شہروں میں زندگی کا یہ اسلوب تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے بلکہ یہ دیکھ کر اب تکلیف ہوتی ہے کہ بڑے بڑے گھر اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے اولاً تو مہمان صرف اپنے رشتے داروں اور احباب کو سمجھتے ہیں حالانکہ ان کا حق بطور رشتے دار اور احباب کے ہے، بطور مہمان کے نہیں۔ مہمان تو اجنبی آدمی ہوتا ہے جو کسی ضرورت کے تحت کسی گھر میں بھی مہمان کے طور پر ٹھہرے اور دوسری چیز جو دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ کہ ان بڑے بڑے گھروں میں صرف اتنے بیڈز اور سونے کے لیے پلنگ ہوتے ہیں جتنے ان کے گھر کے افراد ہیں۔ ان کے یہاں یہ تصور ہی عجیب سا ہے کہ کوئی شخص ان کے پاس آکر رات گزارے۔ آپ رات کو بھی ان کے پاس جائیں تو وہ آپ کو چائے یا کوئی ٹھنڈا پلا کر فارغ کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ رات کا قیام اب ہمارے یہاں مہمانی میں داخل نہیں رہا۔ اندازہ فرمایئے کہ یہ کس قدر آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور مسلمانوں کی روایات سے انحراف اور محرومی کی علامت ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَکْرُمُ ضَیْفَہٗ (جو آدمی اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے) اکرامِ ضیف مہمان کی عزت کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مہمان کو اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت جانے، اپنی بساط کے مطابق بہتر سے بہتر اس کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا معنی یہ ہے کہ وہ مہمان کے آنے سے یہ سمجھ کر دل گرفتہ نہ ہو کہ مہمان اس کے لیے مالی بوجھ ثابت ہوگا اور وہ اس کو کھانا کھلا کرمادی طور پر گراں بار ہوجائے گا بلکہ اسے یہ یقین ہونا چاہیے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اسے کھانے کو دیا ہے وہ اس کو مہمان کے حصے کا بھی عطا کرے گا۔ اس لیے ہمارے یہاں مشہور ہے کہ مہمان ہمیشہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے اور آخرت کے دن پر یقین رکھنے کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جزا اور سزا کا قانون نافذ ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ یہ اس دنیا کا طریقہ ہے۔ اس لیے آج اگر تم اپنے مہمان کی خاطرداری کرو گے تو یقین جانو تمہیں بھی کسی نہ کسی وقت کسی کا اگر مہمان بننا پڑا تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیکی کے بدلے کے طور پر تمہارے لیے بھی میزبانی کا انتظام فرمائے گا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ آج تم مہمان کی دیکھ بھال کرو، اس کو کھلائو پلائو، آخرت میں اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بدلے میں جنت کے پھلوں سے تمہاری مہمانی کرے گا۔ مہمانوں کے سامنے بہتر سے بہتر کھانا پیش کرنا مہمانی کے آداب میں شامل ہے اور انہی آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ مہمان اس میں سے جیسے اور جتنا بھی کھائے اس پر میزبان کو خوشی ہونی چاہیے۔۔ وہ اس بات کی کوشش یا خواہش نہ کرے کہ میں نے مہمان کے سامنے کھانا پیش تو کردیا ہے اللہ کرے وہ کھانے کی بجائے اس کو ایسے ہی رہنے دے تاکہ اہل خانہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مختصر یہ ہے کہ اچانک کسی صورت میں کسی بھی مسافر کو کوئی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ وہ اگرچہ اپنے گھر میں ایک متمول فرد ہے لیکن اب اسے حالات نے حاجت مند بنادیا ہے۔ تم اس کی حاجت برآری کرکے یا اس کی مہمانی کرکے اللہ تعالیٰ سے اگر اجر وثواب حاصل کرسکتے ہو تو تمہیں ضرور ایسا کرنا چاہیے کیونکہ معاشرے کی مضبوطی اور بہتری کے لیے یہ ایک ناگزیر بات ہے۔ فضول خرچی کی ممانعت آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ فضول خرچی کے معنی کو قرآن کریم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا۔ ایک تبذیر اور دوسرے اسراف۔ تبذیر کی ممانعت اس آیت میں واضح ہے اور اسراف کی ممانعت ولاتسرفوا سے ثابت ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ کسی معصیت میں یا بےموقع، بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر و اسراف کہا جاتا ہے اور بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بےموقع، بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنے کا جائز موقع تو ہو مگر ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے، اس کو اسراف کہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کسی معصیت میں خرچ کرنا، بےموقع اور بےضرورت خرچ کرنا یا ضرورت سے زائد خرچ کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔ اس حکم کی جو حقیقی روح ہے جس کی وجہ سے یہ ممانعت عائد کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی اور اپنی دولت کو صرف اپنے لیے ہی مخصوص نہ رکھے ‘ اس کے ذہن میں یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ میں اپنی کمائی ہوئی دولت کا مالک ہوں۔ بلکہ اس کا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ دولت اللہ کی دین ہے ‘ وہ کبھی خوش ہو کے دیتا ہے اور کبھی آزمائش کے لیے دیتا ہے۔ کسی مقصد کے لیے بھی دے وہ بہرحال اس کی ملکیت ہے ‘ جس کے ہاتھ میں دولت ہے ‘ وہ اس کا مالک نہیں ‘ امین ہے۔ امین کو اس امانت میں تصرف کا اتنا اور ویسا ہی اختیار ہے جتنا اور جیسا اختیار مالک نے عطا کیا ہے۔ اگر وہ اس میں تجاوز کرے گا تو وہ حق امانت میں خیانت کا ارتکاب کرے گا۔ اس تصور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ضروریات ‘ اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد اپنے رشتہ داروں ‘ اپنے ہمسایوں اور دوسرے حاجت مند لوگوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ اجتماعی زندگی میں تعاون ‘ ہمدردی ‘ حق شناسی اور اور حق رسانی کی روح جاری وساری ہے۔ ہر رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کا معاون اور ہر مستطیع انسان اپنے پاس کے محتاج انسان کا مددگار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے ‘ اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔ ذوی القربیٰ ‘ مسکین اور مسافر کے حق کی ادائیگی کا حکم دے کر پروردگار نے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ ہر صاحب مال کے مال میں اس کے قرابتداروں ‘ مسکینوں اور مسافروں کا بھی حق ہے۔ ” حق “ کے لفظ کا استعمال اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا حق ہے جس کی ادائیگی صاحب مال پر لازم ہے۔ اگر کوئی شخص اس حق کو ادا نہ کرے گا تو وہ عند اللہ غصب حقوق کا مجرم ٹھہرے گا۔ منشورِ اسلامی کی یہ دفعات صرف انفرادی اخلاق کی تعلیم ہی نہ تھیں بلکہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست میں انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ کے احکام دیے گئے۔ وصیت اور وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے۔ سورة النساء میں یتیموں کے حقوق پر نہ صرف زور دیا گیا بلکہ ان کی حفاظت کا انتظام بھی کیا گیا۔ ہر بستی پر مسافر کا یہ حق قائم کیا گیا کہ کم از کم تین دن تک اس کی ضیافت کی جائے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اخلاقی نظام ‘ عملا ً ایسا بنایا گیا کہ پورے اجتماعی ماحول میں فیاضی ‘ ہمدردی اور تعاون کی روح جاری وساری ہوگئی۔ مسلمانوں کی فکر مندی کا یہ عالم ہوگیا کہ ایک دوسرے کے گھروں کی پاسداری کرنے لگے۔ اور ہر ممکن طریق سے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ ہمارا کوئی بھائی ضروریات کے ہاتھوں پریشان تو نہیں۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بعض لوگ اپنی چھت پر چڑھ کر آواز دیتے ” لوگو ! غور کرو ہماری اڑوس پڑوس میں رات کو کوئی شخص بھوکا تو نہیں سویا۔ ایسا نہ ہو اس کی وجہ سے اللہ کا عذاب اس بستی پر نازل ہوجائے۔ “ خلفائے راشدین نے ہر شخص کی ضروریات کے لیے اپنے آپ کو کفیل سمجھا اور ہر یتیم اور مسکین اور غریب آدمی کو حق دیا کہ وہ امیر المؤمنین سے اپنی ضروریات کا مطالبہ کرسکے۔ اسی شدت احساس کے باعث حضرت عمر فاروق ( رض) نے آہ کھینچتے ہوئے فرمایا تھا ” اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرگیا تو قیامت کے دن عمر سے پوچھا جائے گا۔ “ وَاِمَّا تَعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَآئَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّہُمْ قَوْلاً مَّیْسُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 28) (اگر تمہیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں جس کے تم متوقع ہو ان سے اعراض کرنا پڑجائے تو تم ان سے نرمی کی بات کہہ دو ۔ ) ایک نادر ہدایت مالی معاملات اور باہمی تعلقات کی تربیت کے ضمن میں قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں ایک عجیب ہدایت دی ہے، وہ یہ ہے کہ سابقہ آیات میں تم نے دیکھ لیا کہ تمہارا مال و دولت تمہاری ملکیت نہیں، اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، وہی اس کا مالک ہے، اسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مال میں بندوں کے حقوق مقرر کرے۔ چناچہ گزشتہ آیت کریمہ میں اس نے مال کے بارے میں ہدایات عطا فرمائیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ وہ لوگ جن کے حقوق تمہارے مال میں ہیں یا تمہیں جن کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اگر تمہارے پاس ایسے وقت میں آئیں کہ تمہارا ہاتھ اس وقت خالی ہو اور تم دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں اس لیے کہ ہر شخص کے مالی معاملات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ دینے کی پوزیشن میں ہوتا اور کبھی لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لینے والے پرانی شہرت یا معمول کے مطابق اگر لینے کے لیے آجائیں تو خالی ہاتھ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہ کرو۔ صاف صاف معذرت کرلو۔ لیکن اگر تمہیں کہیں سے مال آجانے کی توقع ہو تو تم نہایت نرمی سے کسی آنے والے وقت کا وعدہ کرلو کہ اس وقت میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں، امید ہے کہ تھوڑے عرصے میں اللہ تعالیٰ کرم فرمائے گا تو میں آپ کی مدد کرنے کے قابل ہوجاؤں گا۔ آپ اس وقت تک مجھے معذور سمجھیں، لیکن کسی صورت میں بھی لہجہ سخت نہیں ہونا چاہیے تاکہ آنے والے کے دل پر چوٹ نہ لگے اور اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
Top