Baseerat-e-Quran - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور ہر طرح کی فضول خرچی سے بچو
لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 30 ات دو ، ادا کرو۔ ذی القربی رشتے دار۔ لاتبذر فضول خرچی نہ کرو۔ اخوان بھائی۔ کفور ناشکرا، ناقدرا۔ تعرض نہ تو منہ پھیرے گا۔ ابتغاء تلاش کرنے کو۔ ترجوا تو امید رکھتا ہے۔ قول میسور نرم اور آسان بات۔ مغلولۃ بندھا ہوا۔ عنق گردن۔ لاتبسط نہ کھول۔ ملوم ملامت زدہ۔ محصور تھکا ہارا۔ یقدر اندازے سے دیتا ہے۔ تنگ کردیتا ہے۔ بصیر دیکھنے والا۔ تشریح : آیت نمبر 26 تا 30 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے چار بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں۔ 1- اپنے ضرورت مند رشتہ داروں، محتاجوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا۔ 2- فضول خرچی سے بچنا کیونکہ فضول خرچی کرنے والا شخص اس شیطان کا بھائی ہے جو اللہ کا نافرمان اور ناشکرا ہے۔ 3- اگر سائل کو دینے کی استطاعت نہ ہو اور کسی کو یہ امید ہو کہ اگر اللہ نے رحمت فرمائی تو میں اپنے بھائی کی مدد کروں گا فرمایا کہ ایسے موقع پر ان سے نرمی سے بات کہہ دی جائے۔ 4- نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھے اور نہ اس طرح کھلا چھوڑ دے کہ خود ہی دوسروں کا محتاج ہو کر رہ جائے فرمایا کہ راہ اعتدال سب سے بہتر راستہ ہے۔ 5- رزق کی تنگی اور رزق کی وسعت یہ سب کچھ اللہ کے نظام کا ایک حصہ ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے حالات کو اچھی طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غریب، مسکین اور ضرورت مند رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا ہے جس کو ” صلہ رحمی “ کہا جاتا ہے اور فرمایا ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا اللہ کی ہزاروں نعمتوں کا حق دار بن جاتا ہے لہٰذا کوئی شخص مال دار ہو یا غریب دونوں کی یہ معاشرتی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی کفالت اور مدد کا خاص خیال رکھے اور اسی طرح ان لوگوں کا بھی پوری طرح خیال رکھا جائے جو کسی وجہ سے دوسروں کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں اور ان کا بھی خیال رکھے جو اپنے گھر بار اور بچوں سے دور مسافرت کی حالت میں وقت گذار رہے ہیں اور وہ آپ کی طرف سے کسی طرح کی بھی امداد اور اعانت کے محتاج ہیں۔ مثلاً ان کی مہمان داری کی جائے، اجنبی شہر میں اگر ان کو کسی معلومات کی ضرورت ہو تو ان کو معلومات بہم پہنچائی جائیں۔ اگر وہ کسی وجہ سے کسی مالی امداد کے محتاج ہوجائیں تو نہایت احسن طریقے سے ان کی مدد کی جائے۔ آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے اور ضرورت مندوں اور مسافروں کا خاص خیال رکھنے کا حکم بھی دیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین اسلام ہمیں اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کے ساتھ بھی پوری طرح امداد و اعانت کے دائرے کو وسیع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام ہمیں صرف اپنوں کی نہیں بلکہ غیروں کی امداد کی طرف بھی متوجہ فرماتا ہے یہی درس انسانیت ہے۔ دوسرا اصول یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اعتدال کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے۔ بعض لوگ دوسروں کے ساتھ ہمدردیاں بےاعتدالی کے ساتھ کرتے ہیں کہ مستقبل سے بےنیاز اپنا سب کچھ لٹا کر خلای ہاتھ رہ جاتے ہیں اور اس قابل بھی نہیں رہتے کہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ گھر والوں اور دوسروں کے سامنے شرمندگی کے علاوہ زندگی کی راہوں میں تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اللہ نے اس کو فضول خرچی سے تعبیر فرمایا ہے اور فضول خرچی کو اس قدرنا پسندیدہ قرار دیا ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کو اس شیطان کے بھائی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اللہ کا نافرمان اور ناشکرا ہے۔ فرمایا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی امداد و اعانت سے اپنے ہاتھ کو اس طرح کھینچ لیتے ہیں کہا گر ایک ضرورت مند اپنے حالات میں تڑپ رہا ہے اور تباہی کے کنارے تک پہنچ گیا ہے تب بھی اپنے ہاتھوں کو گردن سے باندھے رہتے ہیں اور ان کو کسی کی حالت پر رحم نہیں آتا فرمایا کہ جس طرح اللہ کے نزدیک فضول خرچ انسان ناپسندیدہ ہے اسی طرح وہ لوگ بھی اللہ کے نزدیک اچھے نہیں سمجھے جاتے جو دوسروں پر رحم و کرم نہیں کرتے اور اپنی ذات اور اپنی دولت مندی کے نشے میں مست اور مگن رہتے ہیں۔ ان آیات میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اگر حالات کی تنگی یا کسی الجھن کی وجہ سے سائل کے ماگننے کے وقت دنیے کے لئے کچھ نہیں ہے اور اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوگا۔ تو اس کی مدد کی جائے گی فرمایا کہ اسئل سے ایسے نرم لہجے اور انداز میں بات کہہ دی جائے کہ اس کو برا بھی نہ لگے اور اللہ کی کچھ نعمت ہاتھ لگنے کے بعد اس کی مدد بھی کردی جائے۔ ایسا انداز اور رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے کسی کا دل ٹوٹ جائے اور کوئی شخص گناہگار ہوجائے۔ چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے بیشک انسان کو وہی سب کچھ ملتا ہے جس کی وہ جدوجہد کرتا ہے لیکن رزق کی وسعت اور رزق کی تنگی یہ سب کچھ اللہ کے نظام کا ایک حصہ ہے وہ جس کو چاہتا ہے ڈھیروں دولت اور کامیابیاں دیدیتا ہے اور نہ چاہے تو ساری محنتوں اور مشقتوں کے باوجود اس کو کچھ نہ دے اور اس کو تنگ حال کر دے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی ہر حالت کا نگہبان اور نگران ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو کب کتنا دینا چاہئے لہٰذا ہر انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ ہی سے مدد مانگتا رہے اور یہ اچھی طرح سمجھ لے کہ رزق کے دروازوں کو ویہ کھولتا ہے اور وہی روزی کو تنگ کردیتا ہے۔ وہ اللہ ہر کام اور ہر چیز کی مصلحت کو اچھی طرح جانتا ہے۔
Top