Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
آپ ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جن سے ہم نے ان کے مختلف طبقوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے اور ان کے حال پر رنجیدہ خاطر بھی نہ ہوں اور اپنی شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھیں۔
لاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 88) (آپ ﷺ ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے جن سے ہم نے ان کے مختلف طبقوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے اور ان کے حال پر رنجیدہ خاطر بھی نہ ہوں اور اپنی شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھیں۔ ) آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو تسلی اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو مزید تسلی دی گئی ہے کیونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی بہت تلخ انداز میں حالات کی سنگینی کا شکار تھے۔ مشرکینِ مکہ کی اندھی مخالفت نے آپ ﷺ کی زندگی دشوار کردی تھی۔ تین سالہ مقاطعہ نے آپ ﷺ لوگوں کے کاروبار بالکل تباہ کردیے۔ آنحضرت ﷺ کا کاروبار تو کارنبوت کی انجام دہی میں ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( رض) کا اثاثہ بھی اسی عظیم خدمت کی نذر ہوچکا تھا۔ معاشرتی مقاطعہ نے صنعت و حرفت اور دستکاری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا بھرکس نکال کے رکھ دیا تھا۔ خوشحال صحابہ ( رض) بھی بدحالی کا شکار ہوچکے تھے۔ اور مزید تکلیف دہ قریش کا رویہ تھا کہ ان کی ایذا دہی سے کوئی چھوٹا بڑا بچا ہوا نہیں تھا اور ان کی زبانوں کے نشتر ہر ایک دل کو زخمی کئے دے رہے تھے۔ کسی کی عزت نفس سلامت نہیں تھی۔ ان حالات میں تسلی اور اطمینان کا امرت عطا کیا جارہا ہے اور دلوں پر محبت کی شبنم برسائی جارہی ہے کہ تمہارا اصل رابطہ قرآن کریم کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے۔ وہ قدرتوں کا مالک ہے، خزانے اس کے قبضے میں ہیں، عزتیں وہی دینے والا ہے۔ اس نے تمہیں قرآن کریم کی شکل میں وہ دولت عطا فرمائی ہے جس سے آج پوری دنیا بےبہرہ ہے۔ اصل قدر و قیمت اس نعمت کی ہے جو تمہارا ہاتھوں میں ہے۔ رہی وہ چیزیں جن سے قریش اور دوسرے لوگ بہرہ ور ہیں ان کی حیثیت اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جسے ہیروں کا خزانہ مل جائے وہ کبھی کوڑیوں کے ڈھیر کی طرف نہیں دیکھتا۔ قرآن کی صورت میں تمہارے پاس ہیروں کی کان موجود ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اسی قرآن کی بدولت تم خشکی اور تری پر غالب آجاؤ گے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی ( رض) نے خوب فرمایا کہ جس شخص کو دولت قرآن بخشی گئی اور اس نے کسی دنیادار کو دیکھا اور اس کے سیم و زر کو نعمت قرآن سے افضل خیال کیا تو اس نے بڑی بےانصافی کی۔ اس نے عظیم المرتبت چیز کو حقیر جانا اور حقیر چیز کو بڑا خیال کیا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے اپنے دورخلافت میں اس سے بھی بڑھ کر بات ارشاد فرمائی۔ ان اللہ یرفع بھذا الکتاب اقواماً ویضع بہ آخرین اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے قوموں کو اٹھائے گا اور اسی کے چھوڑنے کے نتیجے میں قوموں کو گرائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی عزت و ذلت کا سررشتہ اسی کتاب سے باندھ دیا گیا ہے۔ اس کتاب سے وفاداری اور اس کے حق کو ادا کرنا مسلمانوں کی عظمت کا ضامن ہے اور اس کی قدر و منزلت سے ناشناسی اور اس کے حقوق کی طرف سے تغافل مسلمانوں کے زوال اور ذلت کا باعث ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس پر از حکمت قول پر شاہد ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کی روایت ہے کہ جو اس آیت کریمہ کے فہم میں معاون ہوسکتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے ازھدفی الدنیا یحبک اللہ وازھذ فی ما ایدی الناس یحبک الناس دنیا سے بےرغبت ہوجا، اللہ تعالیٰ تجھ سے پیار کرے گا۔ اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےنیاز ہوجا۔ دنیا تیرا احترام کرے گی۔ اس آیت میں مزید فرمایا گیا وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْہِمْآپ ﷺ ان کے حال پر دل گرفتہ نہ ہوں، ہم جانتے ہیں کہ ان کا کفر اور جہنم کی طرف تیز رفتاری سے ان کا سفر تمہیں خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ان کی گالیوں کے جواب میں آپ ﷺ دعائیں دیتے ہیں۔ وہ آپ ﷺ زندگی دشوار کررہے ہیں اور آپ ﷺ ان کی آخرت سنوارنے کے لیے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں۔ اس طرزعمل نے آپ ﷺ کی صحت کو بھی متاثر کیا ہے۔ اب آپ ﷺ ان کی طرف سے کڑھنا اور پریشان ہونا چھوڑ دیں۔ یہ لوگ اس قابل نہیں۔ البتہ آپ ﷺ اپنی تمام تر توجہات اور شفقتیں اپنے صاحب ایمان ساتھیوں کے لیے وقف کردیں۔ انھیں دنیا نے ادھیڑ ڈالا ہے اور امرائے قریش کے طعنوں نے بری طرح ان کے دل زخمی کردیے ہیں۔ اب آپ ﷺ کی نگاہ کرم ان کے دلوں کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ انھیں اس طرح اپنے قریب رکھئے جیسے بچے اپنی ماں کی آغوش کے قریب ہوتے ہیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ کا عذاب زیادہ دور نہ ہو اور قریش اس کا ہدف بننے والے ہوں تو آپ ﷺ اپنے جاں نثاروں کو اس طرح اپنے دامن کی چھائوں میں رکھئے جس طرح مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا کے رکھتی ہے تاکہ آپ ﷺ کے خادموں اور جاں نثاروں کو کوئی دکھ نہ پہنچے اور وہ محسوس کریں کہ جب ہمارے آقا اور ہمارے ماویٰ وملجا ہمارے حال پر مہربان ہیں تو پھر ہمیں کس بات کی پروا ہے۔
Top