Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 63
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے۔ غور کیا تم نے مَّا تَحْرُثُوْنَ : جو بیج تم بوتے ہو
بھلا دیکھو تو جو کچھ تم بوتے ہو
( افرء یتم ما تحرثون۔۔۔۔۔۔۔۔ ) افرء یتم ما تحرثون۔ یہ دوسری دلیل ہے مجھے اس چیز کے بارے میں بتائو : جو تم اپنی زمین میں کاشت کرتے ہو تم اس میں بیچ ڈالتے ہو تم اسے کاشت کرتے ہو اور اس سے کھیتی حاصل کرتے ہو تو اس میں بالی اور دانہ بن جاتا ہے یا ہم یہ سب کچھ کرنے والے ہیں تمہارا کام بیج ڈالنا اور زمین پھاڑنا ہے جب تم اس کا اقرار کرتے ہو کہ دانے سے بالی کا نکالنا تمہارے بس میں نہیں تو تم زمین سے مردوں کو نکالنے اور انہیں دوبارہ اٹھانے سے انکار کرتے ہو۔ حرث کی نسبت ان کی طرف کی اور زرع کی نسبت اللہ تعالٰ کی طرف کی کیونکہ حرث ان کا فعل ہے اور ان کے اختیار پر جاری ہوتا ہے اور زرع اللہ تعالیٰ کا فعل ہے وہ اپنے اختیار سے اگاتا ہے ان کے اختیار سے نہیں اگاتا : اس طرح حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے :” تم میں سے کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے زرعت بلکہ وہ کہے : حرثت کیونکہ زارع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : کیا تم اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں سنتے :” ء انتم تزرعونہٗ ام نحن الزرعون۔ “ (واقعہ) جو آدمی بھی زمین میں بیج ڈالتا ہے اس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ ” اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم “ پڑھنے کے بعد یہ پڑھے ” افرء یتم ما تحرثون۔ “ پھر وہ کہے : بل اللہ الزارع و المنبت والبلغ اے اللہ ! حضرت محمد ﷺ پر رحمتیں نازل فرما ہمیں اس کا پھل عطاء فرما، اس کے ضرر سے ہمیں دور رکھ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر بجا لانے والا بنا دے، اپنی نوازشات کا ذکر کرنے والا بنا دے اور اس میں ہمارے لیے برکت رکھ دے یا رب العالمین ! یہ کہا جاتا ہے : یہ قول اس کھیتی کے تمام آفات سے امان ہوگا، وہ کیڑا ہو، ٹڈی دل ہو یا کوئی اور چیز ہو۔ ہم نے ثقہ لوگوں سے اسے سنا ہے اس کا تجربہ کیا گیا ہے تو اسی طرح پایا گیا۔ ء انتم تزرعونہٗ یعنی تم اسے کھیتی بناتے ہو۔ بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے : فلان زارع جس طرح کہا جاتا ہے حراث یعنی وہ ایسا کام کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کھیتی ہو جو کاشتکاروں کو خوش کرے۔ بعض اوقات بطور مجاز زرع کا لفظ زمین میں بیج ڈالنے اور ہل چلانے پر بھی بولا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ نہی راہنمائی کے لیے ہے یہ نہی روکنے اور واجب کرنے کے لیے نہیں اس معنی میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : لا یقولون احد کم عبد و امتی ولیقل غلامی وجاریتی و فتادی و فتاتی تم میں سے کوئی آدمی یہ نہ کہے عبدی و امتی بلکہ وہ کہے غلامی، جاریتی، فتای، فتاتی۔ سورة یوسف میں اس بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ بعض علماء نے اس میں مبالغہ سے کام لیا اور کہا : وہ یہ نہ کہے حرثت فاصبت بلکہ کہے اعاننی اللہ فحرثت و اعطانی بفضلہ ما اصبت اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی تو میں نے کھیتی باڑی کی اس نے مجھے اپنے فضل سے نوازا تو میں نے اسے پا لیا۔ ماوردی نے کہا : یہ آیت دو امور کو متضمن ہے (1) ان پر احسان جتلایا کہ اس نے ان کی کھیتی کو اگایا یہاں تک کہ اس کے ذریعے وہ زندہ رہے تاکہ اللہ تعالیٰ نیان پر جو انعام کیا ہے اس پر وہ اس کا شکر بجا لائیں (1) ایسی دلیل جو عبرت حاصل کرنے کو لازم کرتی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو کھیتی کو اگایا جب کہ بیج نا پید ہوچکا تھا اور انتہائی بری حالت میں منتقل ہوچکا تھا کہ وہ مٹی میں مل چکا تھا یہاں تک کہ وہ سر سبز شاذات کھیتی بن گیا پھر اسے اس سے کئی گنا قوی بنا دیا جس پر وہ پہلے تھا تو جو انسان فوت ہوچکا ہے اس کو دوبارہ زندہ کرنا اس کے لیے بہت ہی آسان ہے اور وہ اس پر زیادہ قادر ہے یہ دلیل فطرت سلیمہ کے لیے کافی و شافی ہے پھر فرمایا :” لو نشاء لجعلنہٗ خطاماً “ اگر ہم چاہتے تو اس کھیتی کو ریزہ ریزہ بنا دیتے (1) ۔ نظام ایسی ریزہ ریزہ چیز کو کہتے ہیں جس سے کھانے اور غذا کے طور پر کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے ساتھ دو امور پر متنبہ کیا۔ (1) اللہ تعالیٰ نے ان کی کھیتی میں جو نعمتیں عطاء کیں کہ اسے ریزہ ریزہ نہیں کیا تاکہ وہ اس کا شکر بجا لائیں (2) اس کے ذریعے وہ اپنی ذات کے بارے میں عبرت حاصل کریں جس طرح جب وہ چاہتا ہے کھیتی کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے جس طرح جب وہ چاہے گا انہیں ہلاک کر دیگا تاکہ اس سے نصیحت حاصل کریں اور ایسا کرنے سے رک جائیں۔ فظلتم تفکھون۔ اس کے ضائع ہوجانے پر تم تعجب کا اظہار کرتے ہو اور جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے اس پر شرمندہ ہوتے ہو (2) یہ حضرت حسن بصری، قتادہ اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ صحاک میں ہے : تفکہ کا معنی ہے اس نے تعجب کا اظہار کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے : وہ شرمندہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فظلتم تفکھون۔ یعنی تم شرمندہ ہوتے ہو۔ تفکھت بالشئی یعنی میں اس سے لطف اندوز ہوا۔ یمان نے کہا : تم اپنے خرچوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہو اس کی دلیل فاصبح یقلب کیفہ علی ما انفق فیھا (کہف : 42 ) عکرمہ نے کہا : وہ معصیت جو تم سے ہوچکی اور تمہاری سزا کا موجب ہوئی یہاں تک کہ تمہاری کھیتوں میں جا پہنچی اس پر تم ملامت کا اظہار کرتے ہو اور شرمندہ ہوتے ہو (3) ابن کیسان نے کہا : تم غمگین ہوتے ہو (4) معنی قریب قریب ہے اس میں دو لغتیں ہیں تفکھون، تفکنون۔ فراء نے کہا : نون عکل کی لغت ہے۔ صحاح میں ہے : تفکن سے مراد جو چیز فوت ہوئی اس پر شرمندگی کا اظہار کرنا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تفکہ کا معنی ہے بےمقصد گفتگو کرنا، اسی معنی میں فکاھۃ کا لفظ ہے جو مزاح کے لیے بولا جاتا ہے جہاں تک فکاھۃ کا تعلق ہے تو یہ فکہ الرجل فھوف کہ کا مصدر ہے۔ جب وہ اچھی طبیعت کا اور مزاح کرنے والا ہو۔ عام قرأت فظلتم ہے (5) عبد اللہ نے اسے فظلتم پڑھا ہے۔ ہارون نے حسین سے وہ ابوبکر سے روایت نقل کرتے ہیں جس نے اسے فتحہ دیا وہ اصل پر ہے اصل میں ظللتم تھا پہلا نام تخفیف کے طور پر حذف کردیا گیا جس نے ظاء کو کسرہ دیا ہے اس نے پہلے لام کے کسرہ کو ظاء کی طرف منتقل کیا پھر پہلے لام کو حذف کردیا۔ 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 460 2 ؎۔ ایضاً 3 ؎۔ ایضاً 4 ؎۔ ایضاً 5 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 249
Top