Al-Qurtubi - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔
آیت نمبر 70 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : ولقد کرمنا بنی ادم الآیہ۔ جب ترہیب اور ڈرانے والی چیزوں میں سے جن کا ذکر کیا سو کیا تو ساتھ ہی ان پر انعام وکرام کا بھی ذکر کیا۔ کرمنا یہ کرم کو مضاعف بنا کر (یعنی عین کلمہ کو مشدد کرکے) پڑھا ہے، یعنی ہم نے انہیں عزت اور شرف وفضل عطا فرمایا۔ یہ وہ عزت ہے جس نے نقصان اور کمی کی نفی کی ہے نہ کہ اس سے مراد مال کی عزت ہے۔ اور اس عزت و کرامت میں انہیں اس ہیئت یعنی سیدھے قد اور حسین صورت پر پیدا کرنا بھی داخل ہے۔ اور انہیں بروبحر میں سوار کرنا ان چیزوں سے ہے جو سوائے انسان کے کسی حیوان کے لئے صحیح نہیں کہ وہ اپنے ارادہ۔ قصد اور تدبیر کے ساتھ سوار ہوسکے۔ اور ان کی تخصیص ان چیزوں کے ساتھ بھی ہے کھانے، پینے اور لباس میں سے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص کیا ہے۔ اور اس میں انسان کی وسعت کی مثل کوئی حیوان وسعت نہیں رکھتا، کیونکہ خاص طور پر وہی مال کماتے ہیں نہ کہ دیگر حیوان، اور وہ کپڑے پہنتے ہیں اور طرح طرح کے مرکب کھانے کھاتے ہیں۔ اور ہر حیوان کی غایت یہ ہے کہ وہ کچاگوشت یا غیر مرکب کھانا کھاتا ہے۔ اور علامہ طبری نے ایک جماعت سے یہ بیان کیا ہے کہ ابن آدم کی وجہ فضیلت یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کھاتا ہے اور باقی حیوان منہ سے کھاتے ہیں۔ اور یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : اسے مہدوی اور بحاس نے ذکر کیا ہے اور یہی کلبی اور مقاتل کا قول ہے : اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ اور ضحاک نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں بولنے اور تمیز کی قوت کے ساتھ عزت عطا فرمائی۔ حضرت عطا نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے انہیں سیدھے قد اور اس کے بڑھنے کی فضلیت دی۔ یمان نے کہا ہے : حسن صورت کے ساتھ فضیلت دی۔ محمد بن کعب نے کہا ہے : انہیں اس سے فضیلت دی کہ حضور نبی مکرم ﷺ کو ان سے بنایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مردوں کو داڑھی کے ساتھ عورتوں کو مینڈھیوں کے ساتھ فضیلت دی۔ اور محمد بن جریز طبری نے کہا ہے : انہیں تمام مخلوق پر مسلط کرکے اور تمام مخلوق کو ان کے لئے مسخر کرکے انہیں عزت و تکریم عطا کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کلام کرنے اور لکھنے کی قوت کے ساتھ فضیلت دی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : فہم و فراست اور تمیز کی قوت کے ساتھ فضیلت دی۔ اور وہ صحیح قول جس پر تعویل کی جاسکتی ہے کہ بلاشبہ انسان کی فضیلت کا سبب عقل ہے جو مکلف بنائے جانے کی اصل اور بنیاد ہے، اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اسی سے اس کا کلام سمجھا جاتا ہے، اور اس کی نعمتوں اور رسل (علیہم السلام) کی تصدیق تک پہنچا جاسکتا ہے، مگر یہ کہ بندے کے لئے تمام مقصود اور مدعیٰ واضح نہ ہوا تو رسول مبعوث کئے گئے اور کتابیں نازل کی گئیں۔ پس شریعت کی مثال سورج ہے، اور عقل کی مثال آنکھ ہے، پس جب وہ کھلی ہوا اور صحیح و تندرست بھی ہو تو سورج کو دیکھ سکتی ہے اور اشیاء کی تفاصیل کا ادراک کرسکتی ہے۔ اور جو اقوال اوپر مذکور ہوئے ہیں ان میں سے بعض سے قوی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے بعض حیوانوں میں ایسے خصائل رکھ دیئے ہیں جن کے ساتھ ابن آدم سے بھی افضل ہیں، مثلاً گھوڑے کا دوڑنا، اس کا سننا اور اس کا دیکھنا، ہاتھی کی قوت، شیر کی شجاعت اور بہادری اور مرغ کی سخاوت، تو بلاشبہ تکریم و تفصیل عقل کے ساتھ ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ ایک جماعت نے کہا ہے : یہ آیت انسانوں اور جنوں پر ملائکہ کو فضیلت دینے کا تقاضا کرتی ہے اس حیثیت سے کہ ان کی اس قول باری تعالیٰ میں استثنا کی گئی ہے : ولا الملٰئکۃ المقربون (النساء :172) (اور نہ ہی مقرب فرشتے (اس کو عار سمجھیں گے) اور یہ آیت سے لازم نہیں آتا، بلکہ اس میں انسانوں اور جنوں کے درمیان فضیلت کا ذکر ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر وہ چیزیں شمار کرائی ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام حیوانوں سے خاص کیا ہے، اور جن تو بہت زیادہ مفضوک ہیں (یعنی ان پر تو بہت زیادہ فضیلت دی گئی ہے۔ ) اور ملائکہ ان بہت زیادہ مفضول سے خارج ہیں، لہٰذا آیت نے ان کے ذکر کو نہیں چھیڑا، بلکہ یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ افضل ہوں، اس کے برعکس کا احتمال بھی ہوسکتا ہے، اور مساوی ہونے کا احتمال بھی ہوسکتا ہے، المختصر یہ کہ کلام اس مسئلہ میں کسی یقین کی حد تک نہیں پہنچتی۔ تحقیق ایک قوم اس بارے میں کلام کرنے سے دوررہی جیسا کہ وہ بعض انبیاء (علیہم السلام) کو بعض پر فضیلت دینے کے بارے کلام کرنے سے دور رہے اور بچے رہے، کیونکہ حدیث میں ہے :” تم انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان پسند واختیار کے اعتبار سے موازنہ نہ کرو تم مجھے یونس بن متی پر فضیلت دو ۔ “ اور یہ کوئی شے نہیں ہے، کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان بعض کو بعض پر فضلیت دینے کے بارے نص موجود ہے۔ ہم نے اسے سورة البقرہ میں بیان کردیا ہے۔ اور اس میں ملائکہ اور مومن کی تفصیل کے بارے کلام گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : ورزقھم من الطیبٰت یعنی ہم نے انہیں لذیز کھانے اور مشروبات عطا فرمائے۔ مقاتل نے کہا : مراد گھی، شہد، مکھن، کھجور اور حلوا (اور میٹھا پھل وغیرہ) ہیں، اور انسانوں کے سوا دیگر حیوانوں کا جو رزق بنایا وہ تم پر مخفی نہیں ہے مثلاً بھوسہ اور ہڈیاں وغیرہ۔ وفضلنھم علیٰ کثیر ممن خلقنا تفضیلاً اور ہم نے انہیں بہت سے چوپاؤں، جانوروں، ، درندوں، پرندوں پر غلبہ اور تسخیر کے ساتھ، ثواب اور جزا، حفظ وتمیز اور صحیح فہم و فراست کے ساتھ فضیلت دی ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ یہ آیت اسے رد کرتی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اپنے آپ کو عمدہ کھانے سے دور رکھو کیونکہ یہ شیطان کو قوی کرتا ہے وہ اس قوت سے رگوں میں دوڑتا ہے۔ “ اور اس سے بہت سے صوفیاء لذیز اور عمدہ کھانے تدک کرنے پر استدلال کرتے ہیں، اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ قرآن کریم اس کا رد کرتا ہے، اور سنت ثابتہ اس کے خلاف ہیں، جیسا کہ کئی مقامات پر بیان ہوچکا ہے۔ اور ابوحامد طوسی نے بیان کیا ہے کہ حضرت سہل ایک مدت تک بیری کے پتوں سے خوراک حاصل کرتے رہے، اور دقاق نے تین سال تک بھوسہ کے پتہ کھائے۔ اور ابراہیم ابن البنا نے ذکر کیا ہے کہ میں اخمم سے اسکندریہ تک ذوالنون کے ساتھ رہا، پس جب بھی آپ کی افطاری کا وقت آتا تو میں ایک روٹی اور نمک نکالتا جو میرے پاس تھا، اور میں کہتا : آؤ، تو وہ مجھے کہتے : کیا تیرا نمک کو ٹا ہوا ہے ؟ میں کہتا : ہاں۔ فرماتے : تو کامیاب نہیں ہوگا، تو میں ان کے توشہ دان کی طرف دیکھا تو اس میں تھوڑے سے جو کے ستو تھے وہ ان سے پھانک لیتے تھے۔ اور ابو یزید نے کہا ہے : میں نے چالیس سال تک ان میں سے کوئی شے نہیں کھائی جو بنی آدم کھاتے ہیں، ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ ان چیزوں میں سے ہے جس پر نفس کو ابھارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو گندم کے ساتھ عزت و تکریم دی ہے اور اس کے چھلکے کو جانوروں کے لئے بنایا ہے، لہٰذا بھوسہ کھانے میں چوپاؤں کی مزاحمت کرنا صحیح نہیں ہے، اور رہے جو کے ستو تو یہ قولنج کا سبب بنتے ہیں، اور جب انسان جو کی روٹی اور کوٹے ہوئے نمک پر اقتصار کرے تو اس کا مزاج بدل جاتا ہے، کیونکہ جو کی روٹی خشک ٹھنڈی ہے، اور نمک خشک قابض ہے جو دماغ اور بصارت کو نقصان دیتا ہے۔ اور جب نفس اس شے کی طرف مائل ہو جو اس کی اصلاح کرتی ہے اور پھر اسے روک دیا جائے تو اس طرح اسے رد کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت کا مقابلہ کیا گیا، پھر یہ بدن میں بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پس یہ فعل شرع اور عقل دونوں کے مخالف ہے۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ آدمی کی سواری ہے، اور جب اس نے سواری کے ساتھ دوستی کا برتاؤنہ کیا تو وہ اسے (منزل پر) نہیں پہنچائے گی۔ اور حضرت ابراہیم بن ادہم (رح) تعالیٰ سے مروی ہے کہ انہوں نے مکھن، شہد، اور سفید آٹے کی روٹی خریدی، تو انہیں کہا گیا : یہ سب کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : جب ہم نے پایا تو ہم مردوں کی طرح کھائیں گے، اور جب ہم نے کچھ نہ پایا تو ہم مردوں کے صبر کرنے کی طرح صبر کریں گے۔ اور حضرت توری (رح) گوشت، انگور، اور فالوذج (آٹے، پانی اور شہد سے تیار کیا ہوا کھانا) کھاتے تھے پھر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اسلاف میں اس کی کثیر مثالیں ہیں۔ اور اس میں کچھ سورة المائدہ اور الاعراف وغیرہ میں گزر چکا ہے اور وہ کافی ہے۔ اور پہلا نظریہ غلو ہے اگر ان کے بارے میں یہ صحیح ہے۔ ورھبابیۃ ابتد عوھا ماکتبنٰھا علیھم (الحدید : 27) (اور رہبا نیت کو انہوں نے خود ایجاد کیا تھا ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ )
Top