Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 70
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق كَرَّمْنَا : ہم نے عزت بخشی بَنِيْٓ اٰدَمَ : اولاد آدم وَحَمَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں سواری دی فِي الْبَرِّ : خشی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا وَرَزَقْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں رزق دیا مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَفَضَّلْنٰهُمْ : اور ہم نے اہنیں فضیلت دی عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : بہت سی مِّمَّنْ خَلَقْنَا : اس سے جو ہم نے پیدا کیا (اپنی مخلوق) تَفْضِيْلًا : بڑائی دیکر
یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی
وحملنھم فی البر والبحر (71 : 07) ” او انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کیں “۔ خشکی اور تری میں انسانی ٹرانسپورٹ کا مہیا ہونا صرف اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو ایک ایسی فطرت دی ہے اور ایسا نظام فطرت دیا ہے کہ وہ انسانی زندگی اور اس کی سہولیات کے لئے زر و معاون ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کے نظام اور خصوصاً زمین و آسمان کی گردش اور ساخت کو انسانی حیات کے موافق نہ بناتا تو اس کے لئے یہاں زندگی گزار تا یا زندہ رہنا ہی مشکل ہوتا۔ نظام فطرت کی تو اے طیبہ کو دیکھا جائے تو بہ نسبت انسان کے وہ بہت ، سرکش اور پر قوت ہیں اور انسان کے لئے بحر و بر میں یہ حکمرانی ممکن نہ ہوتی۔ لیکن انسان کو اللہ نے وہقوت دی جس کی وجہ سے اس نے اس کائنات کو مسخر کرلیا اور پھر اسے مسخر کرنے کے بعد اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور یہ سب کچھ محض اللہ کے فضل و کرم سے ہوا۔ ورزقنھم من الطیبت (71 : 07) ” اور ان کا پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا “۔ انسان چونکہ اپنی پوری زندگی ، آغاز انسانیت سے یہاں گزار رہا ہے۔ اور دنیا کا ایک طویل عرصہ اور تاریخ گزر چکی ہے۔ اس لئے وہ روٹین میں اللہ کی عطا کردہ بیشمار پاکیزہ نعمتوں کو سرے سے شمار ہی نہیں کرتا۔ ان میں سے کسی نعمت کا احساس اسے تب ہوتا ہے جب وہ اس نعمت سے محروم ہوتا ہے۔ جب وہ محروم ہوجاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اللہ کی کس قدر نعمت تھی جس سے وہ محروم ہوگیا اور وہ کس قدر مزے لیتا رہا ہے۔ لیکن جب یہ محرومیت دور ہوجاتی ہے تو پھر وہ بھول جاتا ہے۔ یہ سورج ، ہوا ، پانی ، یہ صحت ، یہ چلنے پھرنے کی قوت ، بہ حواس ، یہ عقل ، یہ کھانے پینے کی چیزیں ، بہ طویل و عریض کائنات جس میں وہ خلیفۃ اللہ ہے اور اس میں۔ لاتغذ ولا تحصی طیبات جن سے وہ لطف اندوز ہورہا ہے۔ وفضلنھم علی ……(71 : 07) ” اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی “۔ پہلی فضیلت تو یہ دی کہ اس عظیم کائنات کا خلیفہ اسے بنایا۔ پھر انسان کو ایسی خصوصیات بخشیں کہ وہ پوری مخلوق میں ایک ممتاز مخلوق بن گیا۔ اللہ کی تمام مخلوق میں۔ انسان کی سب سے بڑی تکریم یہ ہے کہ انسان خود اپنا ناظم اور کنٹرولر ہو۔ وہ ذمہ دار ہو اور اپنے افعال و اعمال کے نتائج بھگتے۔ کیونکہ یہی وہ بڑی خصویت ہے جس کی وجہ سے انسان انسان کہلایا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ آزاد ہے جو چاہے کرے اور جو بھی کرے اس کے نتائج و عواقب کا ذمہ دار ہو اور جو بوئے اسے کاٹے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دار العمل میں وہ اللہ کا خلیفہ قرار پایا ہے۔ لہٰذا عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دار الحساب اور یوم الحساب میں وہ اپنے کئے کا ذمہ دار ہو اور اس نے جو بویا ہو ، اسے کاٹے۔
Top