Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 77
اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
اَوَ : کیا وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے اَنَّ اللہ : کہ اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے
[ اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ : تو کیا وہ لوگ جانتے نہیں ] [ اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ ] [ يَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ مَا : اس کو ] [ يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں ] [ وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور اس کو جو وہ آشکارا کرتے ہیں ] [ اَوَلَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ ] اس عبارت میں دو دفعہ تو فعل ” علِمَ یَعْلم “ (جاننا، جان لینا) کے مضارع کے صیغے (یَعْلمون اور یَعْلَمُ ) آئے ہیں جن کے مادہ (ع ل م) اور باب و معنی وغیرہ پر الفاتحہ :2 [ 1:2:1 (4)] میں البقرہ :13 [ 2:10:1 (3)] میں بات ہوچکی ہے۔ اسی طرح ” أَنَّ “ (حرف مشبہ بالفعل بمعنی ” بیشک “ ) پر البقرہ :6 [ 2:5:1] میں اور اسم جلالت (اللہ) کی لغوی بحث ” بسم اللّٰہ “ میں ہوچکی ہے ابتدائی ” أوَ “ میں ہمزئہ استفہام (أ) کے ساتھ ” وَ “ اس میں تاکید کے معنی پیدا کرنے کے لیے ہے ” أفَ “ کی طرح) ۔ اس کا ترجمہ ” یا : صرف “ سے ہی ہوسکتا ہے یا ” تو کیا “ یا الٹ کر ترجمہ ” اور کیا “ بھی کرسکتے ہیں۔ ؤ یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ ہے : ” کیا نہیں جانتے وہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ جانتا ہے “ اسی کی بامحاورہ صورتیں ہیں۔ ” کی اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو معلوم ہے “۔ ” کیا ان کو اس کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے۔ “ اور بعض نے ” لا یعلمون “ کی ضمیر فاعلین ” ھم “ کا ترجمہ ” یہ لوگ “ اور ” ان لوگوں “ کی صورت میں کرلیا ہے یعنی ” کیا ان لوگوں کو یہ بات بھی معلوم نہیں کہ خدا کو سب معلوم ہے “ ، ” کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو خبر ہے۔ “ ان تمام تراجم میں ” أَنَّ “ کا ترجمہ ” بیشک : یقینا “ حذف کرکے اس کے مفہوم کو ” یہ بات بھی “ اور ” اتنا بھی “ وغیرہ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ بعض نے اس عبارت کے آخری حصہ ” انّ اللّٰہ یَعْلَم “ کا ترجمہ اگلی عبارت (ما یُسِرُّون وما یُعلِنُون) کے بعد کیا ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔ 2:48:1 (5) [ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ] کا ابتدائی ” مَا “ موصولہ بمعنی ” جو کچھ کہ “ ہے اور اسے مصدریہ بھی سمجھا جاسکتا ہے جیسا کہ ابھی بعض تراجم کے ضمن میں آئے گا۔ اور ” مَا “ یہاں بتکرار آیا ہے یعنی دو دفعہ [ یُسِرُّوْنَ ] کا مادہ ” س ر ر “ اور وزن اصلی ” یَفْعِلُوْنَ “ ہے۔ جو دراصل تو ” یُسَرِرُوْن “ تھا پھر ” ر “ کی کسرہ (-ِ ) ماقبل ساکن (س) کو دے کر دونوں ” ر “ مدغم کردیئے گئے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” سَرَّ… یَسُرُّ “ (…کو خوش کرنا) کے باب معنی اور معروف و مجہول استعمال (سَرَّ یُسَرُّ = خوش ہونا) کی وضاحت البقرہ :69 [ 2:44:1 (4)] میں ہوچکی ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد کا ایک ہی صیغہ صرف ایک بار آیا ہے۔ ؤ زیر مطالعہ لفظ (یُسِرُّوْنَ ) اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ” اَسَرَّ … یُسِرُّ اِسْرَارًا “ کے معنی ہیں : ” چھپانا، چھپا لینا “ اور بعض نے ” مخفی رکھنا “ سے ترجمہ کیا ہے جو شاید عام آدمی کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ ” یُسرُّوْن “ کا ترجمہ ہے۔ ” وہ چھپاتے ہیں “ قرآن کریم میں اس مزید فیہ فعل کے مختلف صیغے 18 جگہ آئے ہیں۔ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ مفعول کے بعد ” الی “ استعمال ہوتا ہے مثلاً ” اَسَرَّ حدیثًا الی فلانٍ “ اس کے مصدری معنی ہیں : ” بات ایک سے چھپانا دوسرے پر ظاہر کرنا “ یعنی خفیہ بات کرنا یا اطلاع دینا۔ اور یہ استعمال بھی قرآن کریم میں کم از کم دو جگہ (الممتحنہ :1 ، التحریم :3) آیا ہے۔ اس باب کا مصدر ” اِسْرارً “ بھی دو جگہ آیا ہے۔ اور اس مادہ سے ماخوذ اور مشتق بعض دیگر کلمات (مثلاً سِرٌّ، سَرَّائ، سُرور، مَسْرور اور سُورُ ) کئی جگہ آئے ہیں۔ [ یُعْلِنُوْنَ ] کا مادہ ” ع ل ن “ اور وزن ” یُفْعِلُوْنَ “ ہے۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” علَن یَعلِن عُلُونًا “ (ضرب سے) اور علِن یَعلَن عَلَنًا وعلانیۃً (سمع سے) کے معنی ہیں : ” ظاہر ہوجانا، سب کو معلوم ہوجانا، “ کہتے ہیں ” عَلِنَ الامرُ “ (معاملہ ظاہر ہوگیا، لازم ہونے کی وجہ سے اس فعل سے اسم فاعل نہیں آتا بلکہ صفت ” عَلِنٌ“ اور ” عَلِیْنٌ“ آتی ہے۔ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں کوئی صیغۂ فعل استعمال نہیں ہوا۔ البتہ اس کا مصدر ” علانیۃ “ چار جگہ آیا ہے (اور یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے) ۔ ؤ ” یُعْلِنُون “ اس مادہ سے باب افعال کا فعل مضارع صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ اس باب سے فعل ” اَعْلَن … یُعْلِنُ اِعْلَانًا “ کے معنی ہیں : …کو ظاہر کردینا، کھول دینا، …کا اظہار کردینا۔ “ یہ فعل متعدی ہے اور اس کا مفعول بنفسہٖ بھی آتا ہے اور ” بائ “ (ب) کے صلہ کے ساتھ بھی کہتے ہیں ” اَعْلَنہ وبِہ “ (اس نے اس کو ظاہر کردیا) اور خود لفظ ”إعلان “ اردو میں مستعمل ہے اس لیے اس کا ترجمہ ” اعلان کرنا “ بھی ہوسکتا ہے۔ اس باب سے فعل کے مختلف صیغے قرآن کریم میں بارہ جگہ آئے ہیں۔ ؤ اس طرح اس پوری عبارت ” ما یُسِرُّونَ ومَا یُعْلِنُوْنَ “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” جو کچھ کہ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ کہ وہ ظاہر کرتے ہیں “ اور بعض نے ” یُعلِنُون “ کے لیے ” وہ اظہار کرتے ہیں، جتلاتے ہیں یا کھولتے ہیں “ ترجمہ کیا ہے اسی طرح ” مَا “ موصولہ کا ترجمہ بعض نے ” جسے “ اور بعض نے ” ان چیزوں کو جو کہ “ ” ان باتوں کو جو کہ “ سے کیا ہے۔ چاہے محاورے کے لیے سہی مگر ” چیزوں اور باتوں “ اصل عبارت پر اضافہ ہے۔ بعض نے ” مَا “ موصولہ کی بجائے ” مَا “ مصدریہ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یعنی ان کی ” چھپی اور کھلی “ دونوں باتیں۔ جو دراصل مصدر بمعنی حال (اسم مفعول کے ساتھ) ہے یعنی ” چھپائی ہوئی اور کھلی کی ہوئی “ (باتیں) ۔ (مصدر اور فاعل مفعول دونوں کے معنی دیتا ہے) اسی طرح بعض حضرات نے سابقہ عبارت کے آخری جملہ ” ان اللّٰہ یعلم “ کا ترجمہ اس زیر مطالعہ عبارت کے ترجمہ کے بعد کیا ہے یعنی ” جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے “ اور اللہ ان کی چھپی اور کھلی دونوں باتیں جانتا ہے۔ “ کی صورت میں۔ اور بعض نے ” مَا “ کی تکرار کے لیے ترجمہ میں ” بھی “ کا اضافہ کیا ہے یعنی ” اللہ کو اس کی بھی خبر ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور اس کی بھی جسے یہ جتلاتے ہیں “۔ اور یہ ” جسے “ دراصل اس ضمیر عائد کا ترجمہ ہے جو یہاں محذوف ہے یعنی ” مایسرونہ “ اور ” مایعلونہ یا بہ “ کی شکل میں۔ 2:48:2 الإعراب اعراب اور ترکیب نحوی بیان کرنے کے لیے زیر مطالعہ دو آیات کو چار جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1 واذا لقوا الذین اٰمنوا قالوا آمنا [ وَ ] عاطفہ بھی ہوسکتی ہے اور مستانفہ بھی یعنی یہ ” یہودیوں “ کے رویہ کے ذکر سے متعلق بھی ہے اور ایک نئے رویہ کا ذکر بھی یہاں سے شروع ہوتا ہے [ اذا ] شرطیہ ظرفیہ ہے یعنی اس میں شرط (جب بھی جب کبھی بھی) اور ظرف یعنی وقت اور جگہ (جس وقت بھی اور جس جگہ بھی) کا مفہوم موجود ہے [ لقوا ] فعل ماضی معروف صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فاعلین ” ھم “ مستتر ہے جو یہاں ” یہود “ کے لیے ہے جن کا ذکر اوپر سے چل رہا ہے۔ یہاں فعل ماضی کا ترجمہ ” اذا “ شرطیہ کی وجہ سے حال میں ہوگا یعنی ’ جب وہ ملتے ہیں “۔ [ الذین ] اسم موصول (جمع مذکر) یہاں فعل ” لقوا “ کا مفعول بہ ہوکر منصوب ہے جس میں بوجہ مبنی ہونے کے کوئی اعرابی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ [ آمنوا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ” ھم “ ہے اور یہ جملہ فعلیہ ہوکر ” الذین “ کا صلہ ہے۔ اور یہ صلہ موصول (الذین آمنوا) ” واذا لقوا “ کے ساتھ مل کر جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ یعنی بیان شرط بنتے ہیں۔ اس کے بعد [ قالوا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر فاعلین ” ھم “ جملہ فعلیہ ہے اور یہاں سے ” اذا “ کا جوابِ شرط شروع ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ ” تو کہتے ہیں “ ہوگا۔ فعل ماضی ہونے کے باعث یہاں شرط اور جوابِ شرط کے فعل (لقوا اور قالوا) ” جزم “ سے بری ہیں [ آمنا ] فعل ماضی معروف مع مستتر ضمیر الفاعلین ” نحن “ ہے اور فعل ” قالوا “ کا مفعول ہوکر محل نصب میں ہے اور اس جملے (قالوا آمنا) کے ساتھ پہلا جملہ شرطیہ مکمل ہوجاتا ہے۔ 2 واذا خلا بعضھم الی بعض۔ قالوا اتحدثونھم بما فتح اللّٰہ علیکم لیحاجّوکم بہ عند ربکم [ واذا ] سابقہ (اوپر والے) ” واذا “ پر عطف ہے اور اسی طرح واو عاطفہ اور ” اذا “ ظرفیہ پر مشتمل ہے [ خلا ] فعل ماضی صیغۃ واحد مذکر غائب ہے [ بعضھم ] مضاف (بعض) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر فعل ” خلا “ کا فاعل ہے اس لیے ” بعض “ مرفوع ہے علامتِ رفع ” ض “ کا ضمہ (-ُ ) ہے اور نحوی حضرات ” اذا “ کے بعد والے (جملے) کو ظرف کا مضاف الیہ لہٰذا محلاً مجرور کہتے ہیں۔ [ الی بعض ] جار (الی) مجرور (بعض) مل کر متعلق فعل ” خلا “ ہیں یا ” الی “ اس فعل (خلا) کا صلہ ہے اور ” الی بعض “ مفعول ہوکر محل نصب میں ہے یہاں تک جملے کا پہلا حصہ ” بیان شرط “ مکمل ہوتا ہے [ قالوا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” ھم “ ہے اور یہاں سے ” اذا “ کے بعد والے جملے کا جواب شرط شروع ہوتا ہے اس کا ترجمہ بھی مثل سابق ” تو کہتے ہیں “ ہوگا [ اَتُحدِّثُونھم ] کا ابتدائی ہمزہ (أ) استفہامیہ ہے جو یہاں انکار کے معنی میں ہے یعنی ” ایسا مت کرو “ کا مفہوم رکھتا ہے ” تحدِّثون “ فعل مضارع مع ضمیر الفاعلین ” انتم “ ہے اور آخر پر ضمیر منصوب ” ھم “ اس فعل اک مفعول ہے۔ [ بما ] جار (ب) اور مجرور (ما) مل کر متعلق فعل (تحدثون) ہے۔ یا ” بِ “ فعل ” حدّث “ کے دوسرے مفعول (دیکھئے حصہ ” اللغۃ “ ) پر آنے والا صلہ ہے۔ اور ” ما “ موصولہ اپنے بعد آنے والے جملے (صلہ) کے ساتھ مل کر یہاں مفعول (ثانی) ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہے۔ [ فتَح ] فعل ماضی معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے [ اللّٰہ ] اس فعل (فتح) کا فاعل (لہٰذا) مرفوع ہے علامت رفع اسم جلالت (اللّٰہ) کا ضمہ (-ُ ) ہے۔ [ علیکم ] جار مجرور (علی+کم) فعل ” فتح “ سے متعلق ہیں۔ اور یہ پورا جملہ ” فتح اللّٰہ علیکم “ (جو فعل، فاعل اور متعلق فعل پر مشتمل ہے) ” بِمَا “ کے ” ما “ کا صلہ ہے اور صلہ موصول (بمع فتح اللّٰہ علیکم) مل کر ” بِمَا “ کی ابتدائی باء (ب) کے ذریعے فعل ” تحدِّثون “ سے متعلق ہیں یا فعل ” تُحَدِّثُوْنَ “ کا مفعول ثانی ہوکر محلاً منصوب ہے [ لیحاجُّوکُم ] کی ابتدائی لام (لِ ) لامِ کی یا لام تعلیل (جس کا ترجمہ ” کہ : تاکہ “ ہوتا ہے) کی بجائے یہاں لام العاقبۃ یا لام الصیرورۃ ہے جس کا ترجمہ ” جس کا نتیجہ یہ ہوا : ہوگا کہ “ سے کیا جاتا ہے (لام تعلیل ہو یا لام عاقبہ دونوں ہی ناصب مضارع ہیں) ” یحاجوکم “ میں ” یُحَاجُوا “ فعل مضارع منصوب (بوجہ ” لام “ ) ہے علامت نصب واو الجمع کے بعد والے ” نون “ کا گر جانا ہے۔ (یہ دراصل ” یحاجون “ تھا) اور دراصل ” ل “ کے بعد ایک ” اَنْ “ مقدر ہوتا ہے جو اصل ناصب ہوتا ہے یعنی ” لِأَنْ “ ) اس صیغہ فعل ” لیحاجَوا “ میں ضمیر فاعلین ” ھم “ مستتر ہے اور آخری ” کم “ ضمیر منصوب برائے جمع مذکر حاضر فعل ” لیحاجّوا “ کا مفعول بہ ہے اردو میں یہاں اس ضمیر کا ترجمہ فعل کی مناسبت سے ” تم کو “ (جھٹلائیں) یا ” تم سے “ (جھگڑا کریں) کیا جاسکتا ہے (دیکھئے حصہ اللغۃ میں تراجم) [ بہ ] جار مجرور (ب+ہ) مل کر متعلق فعل (لیحاجوکم) ہیں اور اس میں ضمیر مجرور (ہ) ” بما فتح اللّٰہ علیکم “ کے ” ما “ کے لیے (عائد) ہے یعنی ” اس کی وجہ سے “ [ عندربکم ] میں ” عند “ ظرف منصوب اور مضاف ہے اور ” ربِّکم “ (مضاف ” ربّ “ اور مضاف الیہ ” کم “ مل کر) ” عِندَ “ (ظرف) کا مضاف الیہ ہے ۔ لفظ ” ربِّ “ مضاف ہونے کی وجہ سے خفیف اور خود مضاف الیہ (عند کا) ہونے کی وجہ سے مجرور ہے علامت جر آخری ” ب “ کی کسرہ (-ِ ) ہے ” عند “ کے لفظی اور بالحاظ سیاق بامحاورہ تراجم حصہ ” اللغۃ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ 3 افلا تعقلون یہ جملہ اس سے پہلے البقرہ :33 [ 2:29:2) میں گزر چکا ہے۔ 4 اَوَلا یَعلَمون اَن اللّٰہ یعلم ما یُسِرُّون وما یَعلِنون [ اَوَ ] ہمزئہ استفہامیہ اور واو عاطفہ کا مرکب ہے۔ ” وَ “ یا ” فَ “ کے ساتھ ہمزئہ استفہامیہ مقدم ہوکر اور ” ھل “ استفہامیہ کے ساتھ مؤخر (فھل) آتا ہے اردو فارسی میں اس ” اَوَ “ کا ترجمہ ” کیا اور “ کی بجائے ” آیا ؟ “ سے کیا جاتا ہے [ لایعلمون ] فعل مضارع منفی ” بِلَا “ صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں ضمیر فالعین ” ھم “ مستتر ہے۔ [ اَنَّ ] حرف مشبہ بالفعل اور [ اللّٰہ ] اس کا اسم منصوب ہے اور اس کی خبر اگلا جملہ آرہا ہے [ یَعلَم ] فعل مضارع معروف صیغہ واحد مذکر غائب ہے [ مَا ] اسم موصول فعل ” یعلم “ کا مفعول (لہٰذا محلاً منصوب) ہے [ یُسِرُّون ] فعل مضارع معروف مع ضمیر فالعین ” ھم “ جملہ فعلیہ ہوکر ” ما “ کا صلہ بنتا ہے اور [ ومایُعلِنُون ] میں ” وَ “ عاطفہ کے ذریعے ” مَا یعلنون “ (جو ” ما “ موصولہ اور اس کے صلہ جملہ فعلیہ (فعل فاعل) ” یعلنون “ پر مشتمل ہے) سابقہ صلہ موصول ” ما یسرِّون “ پر عطف ہے۔ یہاں یہ دونوں صلہ موصول (مایسرون اور مایعلنون) فعل ” یعلم “ کے مفعول بنتے ہیں۔ یہاں دونوں جگہ صلہ کے ساتھ اسم موصول ” مَا “ کے لیے ضمیر عائد محذوف ہے یعنی دراصل ” مایسرونہ وما یعلونہ “ تھا اس لیے مترجمین نے اس ضمیر محذوف کے لیے ” جسے “ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ اس کے بھی مختلف تراجم حصہ ” اللغۃ “ میں بیان ہوچکے ہیں۔ 1:48:3 الرسم اس قطعہ آیات (76 ۔ 77) کے تمام کلمات کا رسم املائی اور رسم قرآنی (عثمانی) یکساں ہے۔ کسی کلمہ کے رسم عثمانی پر بحث کی ضرورت نہیں۔ 1:48:4 الضبط اور اس قطعہ کے کلمات میں ضبط کا تنوع درج ذیل نمونوں میں دیکھئے۔
Top