Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 77
اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
اَوَ : کیا وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے اَنَّ اللہ : کہ اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا : جو يُسِرُّوْنَ : وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اور کیا وہ نہیں جانتے کہ بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں ؟
3 بنی اسرائیل کے عناد اور سرکشی کو بیان کرنے کے بعد اب ان کے مختلف طبقوں کا بیان ہو رہا ہے، اس آیت میں عوام کی حالت بیان کی گئی ہے۔ (رازی) اُمیّ وہ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور ”امانی“ ”اُمْنِیَّۃٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی آرزؤوں یا من گھڑت روایات کے ہیں، یعنی یہود میں ایک طبقہ جو عوام کا ہے اور ان پڑھ ہے، انھیں ”الکتاب“ یعنی تورات کا تو کچھ علم نہیں، مگر وہ اپنے سینوں میں بعض بےبنیاد قسم کی آرزوئیں پالے ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے بزرگوں کی وجہ سے اللہ انھیں ضرور بخش دے گا، یا یہ کہ جنت میں یہود کے سوا کوئی نہیں جائے گا وغیرہ، مختلف قسم کی خرافات کا عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی غلط آرزوئیں ہیں یا من گھڑت قصے ہیں جو انھوں نے سن رکھے ہیں۔ (ترجمان) ”اُمْنِیَّۃٌ“ کا ایک معنی تلاوت بھی آتا ہے، فرمایا : (اِلَّآ اِذَا تَـمَنّىٰٓ اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِهٖ ۚ) [ الحج : 52 ] اس کا ایک ترجمہ تلاوت بھی کیا گیا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ خالی تلاوت کرسکتے ہیں مگر انھیں اس کے مطلب کی کچھ خبر نہیں، جیسا کہ آج کل اکثر مسلمان، خواہ حافظ قرآن ہوں، محض تلاوت کرسکتے ہیں، مگر مفہوم سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ ایسا پڑھنا نہ پڑھنے ہی کے برابر ہے، اس لیے ان کے اُمّی ہونے کے خلاف نہیں۔
Top