Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
رکوع نمبر 9 وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْہَا۝ 0 ۭ وَاللہُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۝ 72 ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( نس ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ درأ الدَّرْءُ : المیل إلى أحد الجانبین، يقال : قوّمت دَرْأَهُ ، ودَرَأْتُ عنه : دفعت عن جانبه، وفلان ذو تَدَرُّؤٍ ، أي : قويّ علی دفع أعدائه، ودَارَأْتُهُ : دافعته . قال تعالی: وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] ، وقال : وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] ، وفي الحدیث :«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» ( د ر ء ) الدواء کے معنی ونیزہ وغیرہ کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا میں نے اس سے دفع کیا قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے ۔«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» شرعی حدود کو شہبات سے دفع کرو ادارأتم ( ادّارأتم) ، أصله تدارأتم من الدرء وهو الدفع، اجتمعت التاء مع الدال وهما قریبتا المخرج فسهل الإدغام بينهما ولکن بقلب التاء دالا . فلمّا بدأ الفعل بالساکن بسبب الإدغام أضيفت همزة الوصل فقیل ادّارأتم وزنه أتفاعلتم المنقلب من تفاعلتم، ويجوز أن يكون افّاعلتم . ( مخرج) ، اسم فاعل من أخرج الرباعيّ ، فهو علی وزن مضارعه بإبدال حرف المضارعة ميما مضمومة وکسر ما قبل آخره . اصل میں تدارء تم تھا تدارء ( تفاعل) مصدر جس کے معنی لڑائی میں ایک دوسرے پر سے ہٹانا۔ متفق نہ ہونا۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنا ای تدافع۔ تدارء تم کی تاء کو دال میں بدل کر دال مابعد میں مدغم کردیا۔ پھر ابتداء بالسکون کی دشواری کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصل لائے۔ ادارؤتم ہوگیا۔ معنی یہ ہے کہ : تم ایک دوسرے پر ( اس قتل کا) الزام لگانے لگے۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة/ 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة/ 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران/ 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء/ 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء/ 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام/ 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] هو أن تنطق جو ارحهم . ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة/ 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة/ 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء/ 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء/ 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء/ 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام/ 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔
Top