Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
(آپ ہماری طرف سے کہہ دیجئے) پھر ہم نے دی موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب ، پورا کرنے کے لئے نعمت کو اس شخص پر جل نے اچھا کام کیا۔ اور تفصیل ہر چیز کے لئے اور ہدایت اور رحمت تا کہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات ک ساتھ ایمان لائیں
پہلے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے شرکیہ افعال کا رد فرمایا اور پھر غیر اللہ کی نیازات کی تردید فرمائی ۔ اس کے بعد ان باتوں کا ذکر ہوا جن کو اللہ نے ناجائز قراردیا ہے اللہ نے ان کے متعلق سخت تاکیدی حکم دیا اور اس کو صراط مستقیم قرار دیا۔ نیز غلط راستوں پر چلنے سیمنع فرمایا ، کین کہ غلط راستے اللہ کے راستے سے جدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے تورات کا ذکر فرمایا ہے اور نزول قرآن کا تذکرہ کیا ہے اللہ نے ان دونوں کتابوں کو ہدایت اور رحمت سے تعبیر کیا ہے اور قرآن پاک کا اتباع کر نیکی تلقین کی ہے پھر قرآن پاک کے نزول کی دو وجوہات بیان کر کے مشرکین کو ان کی طرف متوجہ کیا ہے نیز اس کلام پاک سے روگردانی کی مذمت بیان کی ہے او ایسا کرنیوالوں کو سخت سزا کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ثم اتینا موسیٰ الکتب پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السالم) کو کتاب عطا کی ۔ آیت کی ابتدا میں لفظ ثم کچھ اشکال پیدا کرتا ہے عربی زبان میں یہ لفظ عطف اور تاخیر کے لئے آتا ہے یعنی اس سے پہلے کوئی دوسرا کام انجام دیا جا چکا ہے اور بعد والے کام کے لئے ثم سے ابتداء ہوتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ یہ کہ قرآن پاک پہلے نازل ہوا اور پھر اس کے بعد اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل فرمائی ؟ مگر ایسا نہیں ہے پہلے تورات عطا کی گئی اور اس کے بعد قرآن نازل ہوا۔ لہذا یہاں پر لفظ ثم سے ترتیب میں تاخیر مراد نہیں بلکہ صرف بیان میں تاخیر مراد ہے کہ پہلے کچھ اور بیان کی جا چکا ہے اور اس کے بعد تورات کی بات کی جا رہی ہے چناچہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس عبارت کا تعلق گزشتہ سے پیوستہ درس والی آیت ” قل تعالوا “ سے ہے۔ وہاں بیان یہ تھا کہ آئو میں تمہیں پڑھ کر سنائوں وہ چیزیں جو اللہ نے تم پر حرام کی ہیں اور اب اسی پر عطف کر کے بیان کیا جا رہا ہے کہ پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی۔ امام ابن جرید (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کی ابتداء میں الفاظ قل لھم مخدوف ہیں اور پورا مطلب یوں ہے کہ اے پیغمبر ! آپ ہماری طرف سے خبر دیتے ہوئے لوگوں سے کہہ دیں کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی۔ مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے توحید ، رد شرک اور محرمات کا بیان تھا اور سورة کے آخر میں بھی توحید ہی کا بیان اور ملت ابراہیمی کا خلاصہ آ رہا ہے تو یہاں درمیان میں نبوت اور رسالت کی بات ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح توحید اور شرک کا بیان سنا اسی طرح رسالت کی بات بھی سن لو ، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کی بات کی جا رہی ہے۔ مشرکین حضور ﷺ کی نبوت کا بھی انکار کرتے تھے اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن پاک کو بیھ تسلیم نہیں کرتے تھے ، تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب تورات کا ذکردلیل کے طور پر کیا ہے مقصد یہ ہے کہ حضور خاتم النبین (علیہ السلام) کا دعویٰ نبوت و رسالت کوئی انوکھی اور عجیب بات تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پہلے بھی رسول بھجھتا رہا ہے۔ اور ان پر کتابیں بھی نازل ہوئیں ہیں ۔ لہذا حضور نبی کریم ﷺ کی رسالت اور نزول قرآن کا کیوں انکار کرتے ہو۔ بہرحال یہاں پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے انکار کے جواب میں نبوت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے اور کتاب کے انکار کے جواب میں تورات کی بات کی ہے اس کے علاوہ دوسری بات یہی ہے گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی کے جو دس اصول بیان فرمائے ہیں ان پر قرآن حکیم اور تورات دونوں کتابیں متفق ہیں ، چناچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی رسالت کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ فرمایا ، آپ ہماری طرف سے کہہ دیں کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی۔ قرآن پاک اور تورات دونوں آسمانی کتابیں ہیں ، قرآن کریم کی طرح تورات بھی اپنے زمانے کی عظیم کتاب تھی۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” فاتوبکتب من عنداللہ ھوا اھدی منھما (القصص) اگر تمہیں ہماری یہ کتاب منظور نہیں ہے تو پھر کوئی اور کتاب لے آئو جو ان دونوں یعنی قرآن اور تورات سے زیادہ راہنمائی کرسکے ۔ یاد رہے کہ موجودہ تورات اپنی اصل حالت پر قائم نہیں رہ سکی۔ اس میں بہت سا تغیر و تبدل ہوچکا ہے اس وقت جو کتاب بائیبل کے نام سے موسوم ہے اس کے پہلے پانچ بات تورات ہی کا حصہ ہیں اس کے علاوہ بائیبل میں مزید 39 صحیفے شامل کئے گئے ہیں اور آخر میں چاروں انجیلیں ہیں غرضیکہ تورات اپنے زمانے میں جامعیت کے اعتبار سے ایک عظیم کتاب تھی ۔ باقی صحائف اتنی جامعیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ تورات ایک مکمل قانون کی کتاب تھی۔ جس طرح یہ کتاب اپنے زمانے میں منفرد حیثیت کی حامل تھی اسی طرح موجودہ زمانے میں قرآن حکیم سب سے زیادہ راہنمائی کرنے والی کتاب ہے ، تو فرمایا اگر تم اس کتاب کو نہیں مانتے تو اس سے بہتر کوئی کتاب لے آئو ان دونوں کتابوں کا اکٹھا تذکرہ اس لحاظ سے بھی ہے کہ دونوں کے اوصاف مشترک ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ علیہ اسلام کو کتاب عطا فرمائی تماما پورا کرنے کے لئے اپنی نعمت کو علی الذی احسن اس شخص پر جس نے بہتاچھا کام کیا۔ اس شخص سے مراد حضرت موسیٰ علیہ اسلام ہیں جنہوں نے تورات کے احکام لوگوں تک پہنچانے کے لئے بڑی محنت اور کوشش کی اس کے علاوہ الذی سے مراد ہر وہ شخص بھی ہو سکتا ہے جس نے تورات پر عمل کیا۔ ظاہر ہے کہ جس شخص تک تورات پہنچی پھر اس نے اسے تسلیم کیا اور اس کے احکام پر عمل کیا۔ اس پر اتمام نعمت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی نعمت پوری کردی کہ اس نے ہدایت کو پا لیا اتمام نعمت کے سلسلے میں آگے قرآن پاک کا ذکر بھی آ رہا ہے۔ فرمایا تورات کا نزول ایک تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام نعمت ہے اور دوسرا وتفصیلا لکل شی اس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ہر چیز سے مراد لکل مایحتاج الیہ فی امور الدین ہے یعنی دین کے معاملہ میں جن چیزوں کی احتیاج ہوتی ہ وہ سب اس میں آگئی ہیں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کل شی سے ہر جزوی چیز مراد نہیں بلکہ دین کے قواعد ، کلیات ، اصول ، ضوابط وغیرہ مراد ہیں جو سب کے سب شامل ہیں۔ دین کے معاملے میں جن چیزوں کو انسان کی عقل و حواس ادراک کرنے سے قاصر ہے جیسے ثواب ، عذاب ، جنت ، دوزخ ، جائز ، ناجائز خدا کی مرضیات اور نامرضیات وغیرہ ، ایسی چیزوں کو وحی الٰہی کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے اور یہ تمام تفصیلتا کتاب الٰہی میں پائی جاتی ہیں اسی لئے فرمایا کہ تورات میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے اس معاملہ میں حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے بھی فرمایا ہے کہ دنیا کے معاملات میں تو ہو سکتا ہے کہ بعض معاملات کو بعض لوگ زیادہ بہتر جانتے ہوں مگر جب میں کوئی بات وحی الٰہی کے حوالہ سے کرتا ہوں تو وہ غلطی اور شک و شبہ سے پاک ہوتی ہے مقصد یہ ہے کہ کتاب الٰہی میں جن تفصیلات کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ ایسی چیزیں ہیں جن کا ادراک وحی الٰہی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ فرمایا وھدی ورحمۃ تورات میں ہدایت اور رحمت بھی موجودہدایت سے مراد راہنمائی ہے جس کا انسان سب سے زیادہ محتاج ہے ۔ اسی لئے ہمیشہ رب العزت سے دعا کی جاتی ہے ” اھدنالصراط المستقیم “ اے اللہ ! ہماری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرما۔ دنیا کی زندگی میں انسان کو قدم قدم پر راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی ، نیک امور کی انجام دہی ، برائی سے پرہیز ، آخرت کی فکر اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سلسلے میں انسان ہمیشہ ہدایت کا محتاج ہے اور یہ راہنمائی اسے کتاب الٰہی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے اسی لئے تورات کو ہدایت کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تورات کو رحمت کا لقب بھی دیا گیا ہے اور یہ کسی عمل کے نتیجہ میں آتی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہدایت کو اختیار کرتا ہے اور اس کے بھیجنے والے پر صدق دل سے اعتقاد رکھتا ہے اور پھر اس میں دیئے گئے احکام پر عمل پیرا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوتی ہے۔ فرمایا نزول ہدایت و رحمت کا مقصد یہ ہے لعلھم بلقاء ربھم یومنون “ تا کہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھیں ۔ جب کتاب الٰہی کو پڑھیں گے ان کے لئے ہدایت کا راستہ واضح ہوگا تو انہیں یقین آجائے گا کہ ایک دن انہیں اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہو کر اس دنیا کی زندگی کا حساب بھی پیش کرنا ہے ۔ جب کسی انسان کا عقیدہ آخرت پر مضبوط ہوجاتا ہے تو پھر وہ برائیوں سے رک کر نیکی کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور جب یہی عقیدہ کمزور پڑجاتا ہے تو پھر اسے کسی قسم کی برائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی وہ شتر بےمہار ہو کر جہاں چاہے چلا جاتا ہے اور آخرت کی دائمی زندگی کو عداب میں مبتلا کرلیتا ہے ۔ مقصد یہ کہ برائی سے بچنے کے لئے آخرت پر ایمان لانا ضروری یہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے ” وبالاخرۃ ھم یوقنون (البقرہ) وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ تورات کا تعارف کرانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم کا تذکرہ فرمایا ہے وھذا کتب اور یہ کتاب بھی ، جس کی یہ بھی ایک سورة ہے ۔ اس کی کل 114 سورتیں ہیں اور ہر سورة ایک صحیفہ ہے۔ انزلنہ اس کو بھی ہم نے نازل کیا ہے۔ یہ بھی ایک عظیم کتاب ہے۔ اپنے حجم کے اعتبار سے تو یہ چھوٹی ہے مگر جامعیت کے اعتبار سے اس سے عظیم کوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں۔ تمام تر اختصار کے باوجود اس کتاب میں علم و عرفان کا وہ خزانہ موجود ہے جس پر انسانیت ابدالآباد پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ اور یہ ایسی کتاب ہے جسے بتدریج نازل کیا گیا اور پوری کتاب تئیس (23) برس میں مکمل ہوئی۔ برخلاف اس کے تورات کو یکبارگی عطا کیا گیا۔ اس لئے اس کے متعلق فرمایا ثم اتینا “ پھر ہم نے عطاکی لکھی لکھائی پوری کتاب مگر قرآن حکیم کے متعلق فرمایا انزلنہ ہم نے اسے نازل فرمایا یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے بتدریج اپنے آخری نبی پر نازل فرمایا سورة بنی اسرائیل میں ہے ” وبالحق انزلنہ ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل فرمایا یہ بھی خدا کا کلام اور وحی الٰہی ہے۔ تورات کی طرح یہ بھی چشمہ ہدایت ہے اور جس رسول پر اس کا نزول ہوا ہے ، وہ تمام رسولوں میں خدا کا آخری اور برگزیدہ رسول ہے۔ فرمایا اللہ کی اس آخری کتاب کی ایک صفت مبرک ہے یہ ہر لحاظ سے بابرکت اور مقدس کتاب ہے برکت کا معنی ہوتا ہے مقدس زیادتی ، ہر زیادتی کو برکت سے تعبیر نہیں کرسکتے بلکہ برکت اس زیادتی کو کہتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے خیر و خوبی شامل ہو امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ برکت ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔ اور برکت کو نازل کرنے والا صرف خدا تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں بہرحال فرمایا کہ یہ قرآن پاک ایک بابرکت کتاب ہے ۔ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ بابرکت ہے تو حکم ہوا فاتبعوہ اب اس کا اتباع کرو ۔ اس میں موجود تمام احکام کو بسروچشم تسلیم کرو اور ان پر عمل پیرا ہو جائو اس میں مندرج فرائض سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے ۔ بعض نوافل اور مباحات ہیں۔ بعض اس سے کم درجے کی مکروہات بھی ہیں۔ یہ تمام کی تمام واجب التعمیل ہیں۔ البتہ فرائض کو اولیت دو ، فرض واجب اور ارکان پر عمل لازم ہے ۔ فقہاء محدثین نے مثال کے طور پر وضاحت کی ہے کہ نماز میں فرض ، واجب ، ہنن ، مستحب ، مباح ، نوافل وغیرہ سب آتے ہیں ہر ایک کے درجے کو پہچاننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے اگر فرض ترک ہوجائے تو نماز نہیں ہوتی واجب رہ جائے تو سجدہ سہو سے تلافی ہوجاتی ہے۔ سنت ترک ہوجائے تو نماز ناقص رہتی ہے اور کوئی مباح یا مستحب چھوٹ جائے تو نماز میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا۔ بہرحال فرمایا کہ قرآن پاک کے ہر حکم پر عمل کرو واتقوا اور ڈرتے رہو اور برائی سے بچتے رہو۔ کفر ، شرک اور بدعت کے قریب نہ جائو لعلکم ترحمون تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے صول کا یہی ذریعہ ہے کہ اس بابرکت کتاب کا اتباع کیا جائے ، اس کے احکام کی خلاف ورزی سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے یہ دونوں کتابوں یعنی تورات اور قرآن پاک کی پوزیشن واضح ہوگئی اور ان کتابوں میں موجودہ متفق علیہ چیزوں کا ذکربھیہو گیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے نزول کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ ان تقولو اے مشرکین عرب ! تم یہ نہ کہ سوانمآ انزل الکتب علی طائفتین من قبلنا کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر کتاب اتاری گئی اور یہ گروہ یہود اور نصاریٰ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے بالترتیب تورات اور انجیل نازل فرمائی۔ یہ دونوں گروہ اہل کتاب کہلاتے ہیں اور مشرکین ان سے بخوبی واقف تھا امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ مجوسیوں کو اہل کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ، کیونکہ وہ خالصتاً مشرک تھے ۔ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ مجوسیوں سے فدیہ لے لو مگر نہ ان کا ذبیح کھائو اور نہ ان کی عورتوں سے نکاح کرو۔ برخلاف اس کے یہود و نصاریٰ کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح بھی جائز ہے۔ فرمایا تم پر یہ کتاب اس وجہ سے اتاری ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے دو گروہوں پر تو کتابیں نازل ہوئیں وانا کنا عن دراستھم لغفلین اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے بیخبر ہے یعنی ہم تو ان کتابوں کو پڑھ ہی نہیں سکے کیونکہ تورات عبرانی زبان میں تھی جب کہ انجیل سریانی زبان میں اور ہماری زبان عربی ہے لہذا ہم ان سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکے۔ سابقہ کتب عربوں تک نہ پہنچنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کتب کے حاملین نے انہیں آگے پہنچانے کا فریضہ بھی ادا کیا۔ لہذا ہم تک ان کتابوں کے مضامین نہیں پہنچ پائے اور ہم ان کو پہچاننے اور ان پر عمل کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ چناچہ اب اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن کریم خود عربی زبان میں نازل فرما کر تمہارے مذکورہ عذر کو رفع کردیا ہے اب تم یہ عذرلنگ پیش نہیں کرسکتے کہ اللہ کے احکام تم تک نہیں پہنچ سکے۔ نزول قرآن کی دوسری وجہ اللہ نے یہ بیان فرمئای اوتقولو لو انا انزل علینا الکتب یا کل کو تم یہ نہ کہہ سکو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی لکنا اھدی منھم تو ہم یہودی و نصاریٰ سے زیادہہدایت یافتہ ہوتے عرب کے لوگ اہل کتاب سے زیادہ ذہین تھے اور انہیں یقین تھا کہ اگر ان کی طرف کوئی آسمانی کتاب آتی تو وہ اہل کتاب کی نسبت زیادہہدایت یافتہ ثابت ہوتے ۔ نفسیات اور قوموں کے محققین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ عرب کے لکھنے پڑھنے سے عاجز لوگ بلا کی ذہانت کے حامل تھے۔ عموماً ان پڑھ ہونے کے باوجود ان کی قوت حافظہ بہت تیز تھی ان میں بڑے بڑے ادیب اور شعراء تھے جنہیں اپنے کلام پر عبور حاصل تھا۔ لہذا ان کا یہ دعویٰ معقول تھا کہ اگر ان کے پاس کتاب آتی تو وہ اس سے بہتر طور پر مستفید ہوتے۔ اس زمانے میں یہود و نصاریٰہی پڑھے لکھے لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں عرب لوگ امی کہلاتے تھے۔ باقی دنیا بھی جہالت کے اندھیروں میں غرق تھی ۔ تہذیب نام کی چیز نہ ترکوں میں تھی اور نہ ہنادوستان والوں کے پاس یورپی قوموں کی پسماندگی کا حال یہ تھا کہ انہیں لباس پہننا بھی نہیں آتا تھا بلکہ اپنی پشتوں پر چھڑا باندھا کرتے تھے۔ تو اس زمانے میں بھی عربوں کی ذہانت قابل داد تھی اور ان کا یہ دعویٰ معقول تھا کہ اگر ان کے پاس کتاب آتی تو وہ اس کے بہتر عامل ثابت ہوتے۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم نازل کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگوں کا مذکورہ اعتراض رفع ہوجائے۔ فرمایا اے مشرکین عرب ! تمہاریان اعتراضات کی پیش بندی کے طور پر فقد جآء کم بینۃ من ربکم تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس اب کھلی دلیل آ چکی ہے وھدی ورحمۃ تورات کی طرح یہ کتاب بھی ہدایت اور رحمت کا چشمہ ہے اس کتاب کو اللہ نے ھدی للعلمین فرمایا ہے اور اس کی تشریح کرنے والے کو رحمۃ للعلمین “ کا لقب دیا ہے یہ اپنے مخاطبین کے لئے منبع ہدایت ہے اور پھر اس پر عمل کرنے والوں کے لئے چشمہ رحمت بھی ہے جو اس پر عمل کرے گا وہ اللہ کی رحمت کے مقام جنت میں داخل ہوگا۔ اس پر ایمان رکھنے والوں پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے حتیٰ کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے جو لوگ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا کتاب الٰہی کیتلاوت کرتے ہیں ان کو فرشتے ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں آسمان تک فرشتوں کا ہجوم ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ کلام مکمل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے فمن اظلم ممن کذب بایت اللہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو الہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ وصدف عنھا اور قرآن کریم سے اعراض کرتا ہے جو شخص ان خوبیوں کی حامل کتاب سے روگردانی کرتا ہے وہ بدبخت ہی ہو سکتا ہے ۔ فرمایا حقیقت واضحہو جاین کے بعد جو لوگ اس سے اعراض کریں گے۔ سنجزی الذین یصدفون عن ایتنا سوء العذاب ہم انہیں سخت عذاب میں مبتلا کریں گے وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر منکرین کے ہر ممکنہ اعتراض کو رفع کردیا ہے اور اب عذر کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ لہذا اب جو لوگ اعراض کریں گے وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے بما کانو یصدفون اس وجہ سے کہ وہ ہماری کتاب اور آیات سے روگردانی کرتے تھے۔ انہوں نے واضح ہدایت آجانے کے باوجود اس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اب ان کا بدلہ یہی ہے کہ وہ ہمارے سخت ترین عذاب کا مزہ چکھیں۔
Top