Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 154
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ اٰتَيْنَا : پھر ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب تَمَامًا : نعمت پوری کرنے کو عَلَي : پر الَّذِيْٓ : جو اَحْسَنَ : نیکو کار ہے وَتَفْصِيْلًا : اور تفصیل لِّكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کی وَّهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةً : اور رحمت لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ بِلِقَآءِ : ملاقات پر رَبِّهِمْ : اپنا رب يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لائیں
پھر ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب دی تمام کرنے کے اپنی نعمت کو ان لوگوں پر جو اچھائی کریں، اور تفصیل بیان کرنے کے لئے ضرورت کی ہر چیز کی، اور سراسر ہدایت اور عین رحمت کے طور پر تاکہ وہ لوگ بنی اسرائیل اپنے سے ملنے پر ایمان لائیں،
321 نعمتوں کی اصل تکمیل کتاب ہدایت ہی سے ہوتی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب دی تمام کرنے کے لیے اپنی نعمت کو۔ یعنی { تماماً } یہاں پر مفعول لہ ہے کہ اپنی نعمت کی تکمیل کے لئے ہم نے ان پر وہ کتاب یعنی تورات نازل کی تھی۔ معلوم ہوا کہ علم اور ہدایت کی نعمت سب نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے۔ اور دوسرا احتمال اسمیں یہ بھی ہے کہ " تماما " صفت ہو کتاب کی ۔ " اَی کَتَابًا تَامًّا کَامِلاً " ۔ یعنی ان کو ایسی کامل کتاب عطا فرمائی جو اس وقت کے لحاظ سے تمام ضروری احکام و مسائل پر حاوی و مشتمل تھی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { وَکَتَبْنَا لَہ فِی الاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیٍٔ مَّوْعِظَۃَ وَّتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شیْیًٔ } ۔ (الاعراف : 145) (المراغی، المعارف وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نعمت کی تکمیل کتاب ہدایت سے سرفرازی کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے ورنہ سب کچھ بےحقیقت اور خام خیالی ہے۔ یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ ۔ { اَلَّذِیْ اَحْسَنَ } ۔ کے کلمات کریمہ سے حضرت موسیٰ کا اس نعمت کے لئے سزا وار ہونا ظاہر فرما دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نعمت سے اس لئے نوازا اور ان کو اس کا سزا وار اس لئے گردانا کہ وہ خوب کار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ظاہر و باطن میں جو کچھ بخشا اس کا حق انہوں نے پہچانا اور ہر نعمت کا حق حسن و خوبی سے ادا کیا۔ اور ایسے ہی بندے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سزاوار بنتے ہیں۔ اور حضرت موسیٰ کے لئے یہاں پر ۔ { الَّذِیْ اَحْسَنَ } ۔ کی اس صفت کا استعمال و اظہار ایسے ہی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم کے بارے میں سورة نجم میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی } ۔ " اور ابراہیم کو جس نے وفا کا حق ادا کردیا "۔ اور اس میں یہود پر تعریض بھی ہے کہ حضرت موسیٰ کیسے تھے اور یہ لوگ کیسے ہیں ؟ ان حضرات نے حسن وفا کا کیا نمونہ پیش کیا تھا اور یہ لوگ کہاں کھڑے ہیں ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا - 322 { تَفْصِیْلًا لِکُلِّ شَیْئٍ } کا معنیٰ و مطلب ؟ : یعنی ان تمام چیزوں کی تفصیل جن کی تفصیل کی ان لوگوں یعنی بنی اسرائیل کو اس وقت دین و ہدایت کے سلسلے میں ضرورت تھی۔ جیسا کہ قرآن حکیم کے بارے میں بھی فرمایا گیا ۔ { وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ } ۔ (یوسف : 111) کیونکہ قاعدئہ کلیہ یہ ہے کہ ہر چیز کا عموم وہی معتبر ہوتا ہے جو اس کے لائق ہو " عُمُوْمُ کُلِّ شَیْئٍ مَاَ یَلِیْقُ بِہٖ " جیسا کہ جمہور علماء و مفسرین کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ بطور نمونہ و مثال ملاحظہ ہو (روح، معالم، مدارک، خازن، محاسن، جامع اور قرطبی وغیرہ) ۔ پس اہل بدعت کا لفظ " کل " سے اپنے شرکیہ عقائد پر استدلال کرنا عقل و نقل اور لغت وبیان سب کے خلاف اور مردود ہے۔ سو اس تفصیل سے مراد ان احکام و مسائل کی تفصیل ہے جو دین کے دائرے میں آتے ہیں۔ دین کے اصول اور بنیادی مسائل تو وہی ہیں جو ملت ابراہیمی سے متعلق بیان ہوئے ہیں لیکن ان میں سے ہر چیز کے تحت مختلف جزئیات اور تفصیلات ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو جو کتاب عطا فرمائی تھی اس میں ضروریات دین سے متعلق ایسی تمام تفصیلات کو بیان فرما دیا گیا تھا جس سے یہ کتاب ہدایت اور رحمت کا ایک عظیم الشان مجموعہ بن گئی تھی۔ سو یہ ہے ۔ { تفصلا لکل شیء } ۔ کا معنی و مطلب۔ والحمد للہ جل وعلا - 323 کتاب الہی سراسر ہدایت اور عین رحمت : یہ آغاز و انجام اور ابتدء و انتہاء دونوں کے اعتبار سے ہے کہ جو اس کو اپنائے گا اس کے لئے یہ کتاب ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہوگی۔ اور اس کے ثمرئہ و نتیجہ کے طور پر اس کو دارین کی سعادتوں اور رحمتوں سے نوازا جائے گا اور اس قدر کہ اسکا کوئی کنارہ نہیں ۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ الْعَالمِیْن ۔ سو ہدایت اور رحمت کے یہ دونوں لفظ نہایت حکیمانہ ترتیب کے ساتھ اس مقصد کو ظاہر کرتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کتاب نازل فرماتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کتاب اس لئے نازل فرماتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے بندوں کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ بتائے جو ان کو دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اہل اور سزا وار بنائے کہ اس سے ان کو دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی نصیب ہوتی ہے۔ اور اسی سے ان کو آخرت کی ابدی زندگی میں رحمت لا متناہی سے سرفرازی نصیب ہوئی ہے۔ سو اس اعتبار سے کتاب اپنے مقصد کے لحاظ سے ہدایت اور اپنے ثمرئہ و انجام کے اعتبار سے رحمت ہوتی ہے ۔ فالحمد للّٰہ جلَّ وعلا - 324 فکر آخرت فلاح و نجات کی اصل اور اساس ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں۔ معلوم ہوا کہ رب سے ملاقات اور اس کے حضور پیش ہونے کا عقیدہ و ایمان دیگر تمام عقائد و ایمانیات کیلئے اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان لا ابالی، لاپرواہ اور غیرذمہ دار ہوجاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور اس ایمان و یقین سے سرفرازی وفائز المرامی کے بعد ہی اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ سو فکر آخرت دارین کی فوز و فلاح اور نجات و اصلاح کی اصل اساس ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ سو حیات دنیا کی اصل غرض وغایت آخرت ہے۔ یہ دنیاوی زندگی تو عارضی اور فانی زندگی ہے اور اس کی اصل قدر و قیمت یہی ہے کہ اس میں اپنی آخرت ہی کو نصب العین بنایا جائے ۔ وباللہ التوفیق -
Top